احتشام کیانی:ڈویثرن بینچ نے قائم مقام چیف جسٹس کے بینچ تبدیلی اختیارات پر مزید سوالات کھڑے کر دیے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ بغیر قانونی جواز کیس سنگل سے ڈویژن بنچ کو ٹرانسفر کرنے سے روک دیا۔
ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ ٹرانسفر یا مارکنگ کرتے ہوئے عدالتی گائیڈ لائنز مدنظر رکھنے کا حکم دے دیا، قائم مقام چیف جسٹس کی ہدایت پر ڈویژن بینچ میں مقرر کردہ کیسز دوبارہ واپس مختلف بنچز میں بھیجنے کا حکم دیا ۔
جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے 12 صفحات کا فیصلہ جاری کر دیا۔ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو حکم دیا گیا کہ جب تک فل کورٹ ہائیکورٹ رولز پر مزید رائے نہ دے انہی گائیڈ لائنز پر عمل کریں، ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈر کے مطابق ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل تمام کیسز متعلقہ بنچ میں بھیج دے۔
ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کیس سنگل بنچ سے ڈویژن بنچ بھیجنے کا اختیار بغیر قانونی جواز استعمال نہ کریں،قانون کی تشریح ہو، ایک ہی طرح کے کیسز ہوں اور قانونی جواز دیں پھر ہی اختیار استعمال ہو سکتا ہے، کیسز فکس کرنے یا مارک کرنے کا اختیار کس کا ہے؟ عدالت نے مستقبل کی گائیڈ لائن دے دی۔
ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق سنگل یا ڈویژن بنچز کیسز فکس کرنے کا اختیار ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا ہے، رولز اینڈ آرڈر کے مطابق چیف جسٹس کا اختیار روسٹر کی منظوری کا ہے،رولز واضح ہیں کہ کیسز کی مارکنگ اور فکس کرنا ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا اختیار ہے، ڈپٹی رجسٹرار کو کیس واپس لینے یا کسی اور بنچ کے سامنے مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔
آصف زرداری کیس میں طے ہو چکا کہ جج نے خود طے کرنا ہے کیس سنے گا یا نہیں،اس کیس میں نہ تو جج نے معذرت کی نہ ہی جانبداری کا کیس ہے،آفس نے انتظامی سائیڈ پر قائم مقام چیف جسٹس کی مناسب انداز میں معاونت نہیں کی۔
جس کی وجہ سے اس عجیب صورتحال نے اس عدالت کو مزید شرمندگی کی حالت میں لایا،آئندہ ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے سی پی سی اور ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز سے رہنمائی لی ہے،چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کے حوالے سے رولز واضح ہیں کہ یہ اختیار انتظامی کمیٹی کا ہے،کیسز فکس کرنا جوڈیشل بزنس ہے اس کو انتظامی اختیارات کے برابر نہیں دیکھ سکتے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے بنچز کسی اور جگہ نہیں اس لیے لاہور ہائیکورٹ کا مختلف سیٹس والا اختیار یہاں استعمال نہیں ہو سکتا،ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اگر سمجھے کیس کسی اور بنچ میں جانا چاہیے تو کسی عجیب صورت حال سے بچنے کے لیے جج کے ریڈر سے رابطہ کرے، جو جج بینچ میں سینئر ہو ٹرانسفر ہونے والا کیس اس کے سامنے رکھا جائے، ایک بینچ نے لکھا ٹیکس اور کچھ اور کیسز ان کے سامنے مقرر نہ کئے جائیں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے یہ تمام کیسز ڈویژن بینچ ٹو میں ٹرانسفر کر دیے،کوئی لسٹ نہیں جس سے معلوم ہو اس نوعیت کا کوئی کیس ہمارے سامنے پہلے زیرِالتواء ہے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے بنچ میں 16 تاریخوں سے ایک کیس زیر سماعت ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے اس کیس کی کافی کاروائی سنگل بینچ میں ہو چکی۔
قائم مقام چیف جسٹس کے انتظامی آرڈر میں نہ کوئی وجہ نہ ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کا کوئی حوالہ ہے،جس سے معلوم ہو کہ وہ کس قانون کے تحت سنگل بنچ کے کیس کو ڈویژن بینچ بھیج رہے ہیں۔
عدالت کا اپنے فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ ٹیریان کیس میں لارجر بینچ طے کر چکا کہ چیف جسٹس بینچ تشکیل دے سکتا ہے لیکن دوبارہ تشکیل یا ترمیم نہیں کر سکتا،صرف اسی صورت میں بینچ دوبارہ تشکیل ہو سکتا ہے جب بینچ معذرت کر لے یا وجوہات کے ساتھ دوبارہ تشکیل کا کہے۔