ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایران کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہو گی، لیڈ اسرائیل کرے گا، ٹرمپ کا انکشاف

 City42, Donald Trump on Iran\'s Nuclear Program, Oval Office, White House, The US-Iran negotiations, Oman mediated US Iran talks, NetanYahu, Israel Iran conflict, City42
کیپشن: صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران پر فوجی حملہ کرنے کی قیاس آرائی ان کے وائٹ ہاؤس آنے سے پہلے ہی کی جانے لگی تھی، اس کی وجہ ایران کے نیوکلئیر پروگرام کے متعلق بڑھتے ہوئے خدشات تھے، ان خدشات کو لے کر ٹرمپ نے ایران  کو اپنے نیوکلئیر پروگرام پر مذاکرات میں انگیج تو کر لیا ہے، لیکن ان مذاکرات سے کوئی معجزانہ حل نکلنے کی کوئی امید نہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کی یہ تصویر 2017 میں بنی تھی۔ آج صدر ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں کے سامنے کھل کر کہا کہ ایران کے ساتھ ان کے نیوکلئیر پروگرام پر مذاکرات اگر ناکام ہوئے تو اسرائیل اور امریکہ مل کر ایران پر فوجی حملہ کریں گے۔ یہ مذاکرات آج کل عمان میں ہو رہے ہیں۔ 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  صدر ڈونلڈ ٹرمپ کل دنیا کے پیچھے ٹیرف کا لٹھ لے کر بھاگتے بھاگتے منہ کے بل گرے اور اٹھ کر  نیوکلئیر مذاکرات کا لٹھ لے کر ایران کے پیچھے بھاگنے لگے؛ اب ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ امریکہ کے "نیوکلئیر مذاکرات" کامیاب نہیں ہوئے تو ایران پر حملہ کی قیادت اسرائیل کرے گا۔ 

  ایران کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات آج کل عمان میں ہو رہے ہیں اور ان مذاکرات کی "ناکامی" کی خبر کسی بھی وقت آ سکتی ہے کیونکہ فریقین ٹیبل پر بیتھ تو گئے ہیں لیکن ان کی توقعات اور ارادوں میں  اتنا زیادہ  فرق ہے جو بظاہر آسانی سے کسی نتیجہ خیز  مرحلہ تک جانے نہیں دے گا۔

 آج دس اپریل کو  صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ان کے ایرانی قیادت کے ساتھ جوہری مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں امریکہ نہیں بلکہ اسرائیل ایران پر حملے کا ’لیڈر‘ ہو گا۔

Captionامریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 9 اپریل 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے کے بعد  کیمرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ (تصویر از SAUL LOEB/AFP)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دراصل  کہا ہے کہ اگر جوہری مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو اسرائیل امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف فوجی حملے کی "قیادت" کرے گا۔

وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں چنیدہ صحافیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران یہ پوچھے جانے پر کہ اگر ایران "نیوکلئیر معاہدہ" (ایٹم بم نہ بنانے کی ویری فائی ایبل ضمانت)پر رضامند نہ ہوا تو  کیا وہ ایران کے خلاف فوجی ذرائع استعمال کریں گے، ٹرمپ نے جواب دیا: "اگر اس کے لیے فوج کی ضرورت ہے تو ہم فوج کو استعمال کریں گے۔"

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا، "اسرائیل واضح طور پر اس (جنگ) میں بہت زیادہ ملوث ہو گا - وہ اس کا لیڈر ہو گا۔"

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس انکشاف انگیز گفتگو کے متعلق ٹائم آف اسرائیل نے لکھا، "ایسا لگتا ہے کہ پہلی بار اس (Trump) نے واضح طور پر اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملے کی دھمکی دی ہے۔"

لیکن ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ اپنی اگلی سانس میں اس تبصرے سے  جزوی طور پر پیچھے ہٹ گئے؛ انہوں نے کہا،  "کوئی بھی ہماری رہنمائی نہیں کرتا۔ ہم وہی کرتے ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔"

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکہ ایران کے خلاف فوجی طاقت کا "بالکل" استعمال کرے گا اور اس کے پاس ایک ٹائم لائن ہے کہ وہ کتنا وقت لیں گے، حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ اس عمل کو دو ماہ کا وقت دے رہے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ عمان میں ہفتہ کو ہونے والی 'سربراہی کانفرنس'  ایک عمل کا ’’آغاز‘‘ ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ان کے ایلچی سٹیو وٹ کوف امریکا کی نمائندگی کریں گے جب کہ ایران کی نمائندگی ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کریں گے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ(ایران کے ایتمی پروگرام پر) یہ مذاکرات براہ راست ہوں گے جبکہ ایران نے کہا ہے کہ یہ  مذاکرات  ثالث کے ذریعے ہوں گے (جو ممکنہ طور پر عمان ہو گا)۔

ٹرمپ نے کہا، ’’ہمارے پاس تھوڑا وقت ہے، لیکن ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے کیونکہ ہم انہیں جوہری ہتھیار رکھنے نہیں دیں گے۔‘‘

"ہم انہیں پھلنے پھولنے دیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ ترقی کریں، میں چاہتا ہوں کہ ایران عظیم ہو، صرف ایک چیز جو ان کے لئے ممنوع ہے ، وہ یہ  کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں ہ رکھیں گے، وہ سمجھتے ہیں۔"

اس گفتگو کے دوران ٹرمپ نے صحافیوں کو کسی وضاحت کے بغیر بتایا، "میں تھوڑا سا حیران ہوا کیونکہ جب الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو میں نے سوچا کہ انہیں ہتھیار مل جائیں گے کیونکہ میرے ساتھ، وہ توڑ دیے گئے تھے"۔ صرف قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ غالباًً گزشتہ الیکشن میں صدر جو بائیڈن سے اپنی شکست کے بعد اپنے وائٹ ہاس سے دور ہونے کے بعد  ایران کے ایٹم بم بنا لینے کے امکان کے متعلق تجزیہ کا ذکر کر رہے تھے۔

یہ یاد  رکھنے کی بات ہے کہ گزشتہ سال ایران نے  دو مرتبہ اسرائیل پر براہ راست حملے کئے، یہ ایران کے اسرائیل کے ساتھ طویل عرصہ سے چل رہی کونفلکٹ کے دوران اسرائیل کی میں لینڈ پر پہلے براہ راست حملے تھے۔  دوسری مرتبہ ایران کے سپر سونک میزائلوں اور دو سو کے لگ بھگ بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے بعد اسرائیل نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایران پر براہ راست ہوائی حملے کئے تھے جو مسلسل کئی گھنٹے جاری رہے اور سینکڑوں زمینی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں اسرائیل کی جانب سے بتایا گیا کہ اس کے حملوں کا ہدف ایران کی میزائل ساز فیکٹریاں ور ائیر ڈیفینس کی تنصیبات تھیں۔ ایران نے ان حملوں میں کسی بڑے نقصان کی تردید کی تھی۔