چینی، آٹے کے بعد پاور سیکٹر میں بھی گھپلوں کا انکشاف

11 Apr, 2020 | 02:14 PM

سٹی42: چینی اور آٹا اسکینڈل کے بعد پاور سیکٹر اسکینڈل کی انکوائری رپورٹ بھی وزیراعظم کو پیش، قومی خزانے کو سالانہ 100 ارب روپے سے زائد نقصان پہنچائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ پاور سیکٹر پر ملکی تاریخ کی پہلی 278 صفحات پر مشتمل رپورٹ 9 رکنی کمیٹی نے تیار کی. 

کمیٹی نے پاور پلانٹس کے ساتھ کیے جانے والوں معاہدوں کو غیر منصفانہ قرار دے دیا ۔ٹیرف، فیول کھپت میں خورد برد، ڈالرز میں گارنٹڈ منافع خزانے کو نقصان پہنچانے کی وجہ قرار، 1994 کے بعد آئی پی پیز کے مالکان نے 350ارب روپے غیرمنصفانہ طور پروصول کئے۔ 15فیصد منافع حاصل کرنے کے برعکس پاورپلانٹس سالانہ 50 تا 70فیصد منافع کمانے میں ملوث نکلے۔ ہر پاور پلانٹ کی قیمت میں 2سے15ارب روپے اضافی ظاہر کرکے نیپرا سے بھاری ٹیرف حاصل کیا گیا. صرف کول پاورپلانٹس کی لاگت 30ارب روپے اضافی ظاہر کی گئی.
کمیٹی کی آئی پی پیز مالکان کیساتھ ‘‘ٹیک اور پے’’کی بنیاد پر کپیسیٹی پے منٹ کا فارمولہ ختم کرنے کی سفارش، انکوائری کمیٹی نے 100ارب روپے ریکوری کرنے کی بھی سفارش کردی.

چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ:

ایف آئی اے انکوائری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چینی کی قلت اورقیمتوں میں اضافےسےمتعلق بااثرنامورسیاسی شخصیات ملو‌ث نکلیں۔ چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ جہانگیرترین کےجےڈبلیو ڈی گروپ نے اٹھایا اور56کروڑکی سبسڈی حاصل کی۔ دوسرےنمبرپرخسروبختیارکےبھائی کی شوگرملزنے45 کروڑجبکہ تیسرےنمبرپرآل میوز گروپ نے40کروڑکی سبسڈی لی.

رپورٹ کےمطابق پانچ سال میں دی جانےوالی سبسڈی میں جےڈبلیوڈی نے3ارب،ہنزہ گروپ نے2.8 ارب، فاطمہ گروپ نے2.3ارب کی سبسڈی لی۔شریف گروپ نے5 سال میں نے1.4اوراومنی گروپ نے90کروڑ کی سبسڈی لی. 

رپورٹ میں چینی کی برآمدکافیصلہ غلط قراردیتےہوئےکہاگیاکہ چینی برآمدسےقیمتوں میں اضافہ ‏ہوا۔ چینی برآمدکرنےوالوں نےسبسڈی کی رقم بھی وصول کی اورقیمت ‏بڑھنےکابھی فائدہ اٹھایا۔ چینی کی قیمتوں میں کمی اوراضافے میں سٹہ مافیا ‏بھی ملوث ہےجن کیخلاف آئی بی اوراسپیشل برانچ کو کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق شوگرایڈوائزری بورڈوقت پرفیصلےکرنےمیں ناکام رہا،دسمبر 2018 سے جون 2019 تک چینی کی قیمت میں16روپےفی کلو‏اضافہ ہوا۔اس عرصےکےدوران کوئی نیاٹیکس نہیں لگایا گیا۔

‏گندم بحران پرتحقیقاتی رپورٹ:

‎ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی سربرا ہی میں تین رکنی کمیٹی نےملک میں ‏گندم بحران پرتحقیقاتی رپورٹ تیارکرکےوزیراعظم کوپیش کی۔۔جس میں پنجاب اورخیبرپختونخواکےصوبائی وزراکوذمہ دارقراردیاگیا جبکہ سندھ کوکلین چٹ مل گئی۔

رپورٹ کےمطابق گندم بحران وفاقی وصوبائی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث سامنے آیا۔ پنجاب فلورمل مالکان نےصوبائی اہلیت کی کمزوری کافائدہ اٹھایا۔ رپورٹ کےمطابق پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے20-22دن تاخیرسےگندم ‏جمع کرناشروع کی۔پنجاب فوڈ‏ڈیپارٹمنٹ ڈیمانڈاسپلائی کیلئےطریقہ کاربنانےمیں ناکام رہااورصورتحال کے‏پیش نظرفیصلےنہیں لئے۔

پنجاب میں گندم ٹارگٹ پوراناہونےکاذمہ داروزیرخوراک سمیع اللہ،سابق فوڈسیکریٹری نسیم ‏صادق،سابقہ فوڈدائریکٹرظفر اقبال کوقراردیاگیا۔ 

رپورٹ کےمطابق سندھ میں کم گندم حاصل کرنے کی ذمہ داری کسی پر انفرادی طور پر نہیں ڈالی ‏جاسکتی۔سندھ کابینہ نے گندم حاصل کرنے کی سمری پر کوئی فیصلہ ہی نہیں ‏کیا۔ کے پی کے میں میں گندم خریداری کےٹارگٹ پورےنہ کرنے پرصوبائی وزیر قلندرلودھی،سیکریٹری اکبر خان اورڈائریکٹرسادات حسین ذمہ دار ہیں۔ 

مزیدخبریں