(سٹی 42) لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی کیخلاف کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور وزیر قانون پنجاب کو آج 3 بجے طلب کرلیا۔
جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں 3 رکنی فل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی بنانے کیخلاف کیس پر سماعت کی، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس، حامد خان سمیت دیگر لاء افسران عدالت پیش ہوئے،عدالت نےریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل کو پہلے سے نوٹس ملا ہوا ہے وزیر اعلیٰ بتائیں کیا وہ ایڈووکیٹ جنرل سے کیس کی پیروی کرانا چاہتے ہیں، دو ہفتے ہوگئے ہیں توہین عدالت کے شوکاز کا جواب نہیں دیا۔
عدالت نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ ایڈووکیٹ جنرل کو دیئے گئےنوٹس پر میرٹ پر دلائل دے رہے ہیں جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ نہیں ابھی میرٹ پر دلائل نہیں دے رہا۔
جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ اگر میرٹ پر جواب ہی نہیں دے رہے تو کیا فائدہ، بنچ اور بار ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں لیکن کسی کو ایک دوسرے پر ہاوی نہیں ہونا چاہیے۔
حامد خان نے کہا کہ توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتے، ابھی تک صرف نوٹس جاری ہوا ہے شوکاز نوٹس نہیں دیا گیا، جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ ہم نے تحمل کا مظاہرہ کیا، جسٹس ملک شہزاد خان نے کہا کہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کے باوجود جواب جمع نہیں کروایا۔
حامد خان نے جواب دیا کہ ہم اس معاملے کو یہاں حل کرنے کی کوششں کررہے ہیں، بنچ نے کہا کہ جواب سے مطمئن ہوتے تو اسی وقت فیصلہ کرلیتے، لاء آفیسر کو توقانون کی حکمرانی کی بات کرنی چاہیے۔
حامد خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ آج کے دور میں توہین عدالت کا قانون متروک ہوچکا ہے، آج کے دور میں توہین عدالت کا استعمال بہت کم ہونا چاہیے، عدالت میں آزادی اظہار وکیل کا حق ہے، جسٹس نیلم نے کہا کہ آزادی اظہار اور اونچی آواز میں بولنے میں فرق ہے۔
جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی گالیاں دینا شروع کردے تو پھر کیا کیا جائے، حامد خان نے کہا کہ اس کو درگزر کیجئے گا، بہت مشکور ہوں، بڑا پن کمزوری کے معنی میں نہیں آتا۔
جسٹس محمد قاسم نے کہا کہ عدالتیں کسی دباؤ یا وکلاء کی تعداد کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتیں، عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون کو آج 3 بجے طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔