سٹی42: پی ٹی آئی کے لیڈر شعیب شاہین اور دیگر ملزموں کو راولپنڈی میں 26 نمبر چونگی پر پولیس پر حملہ، پتھراؤ کے مقدمہ میں آج انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پولیس کی جانب سے ملزموں کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر سماعت مکمل کر کے شیعب شاہین اور دیگر ملزموں کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیسلہ محفوظ کر لیا۔
پولیس کی جانب سے شعیب شاہین اور دیگر کو انسدادِ دہشت گردی عدالت پیش کیا گیا۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے سماعت کا آغاز کیا تو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وکیل بڑی تعداد انسدادِ دہشت گردی عدالت میں موجود تھے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذولقرنین نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے پولیس کے نمائندہ سے استفسار کیا، کیا سب کو لیکر آئے ہیں ؟
پولیس آفیسر ریاست علی آزاد نے جواب دیا، جی نہیں اس وقت تک صرف شعیب شاہین کو لایا گیا ہے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پراسیکیوٹر سے سوال کیا، ان پر کیا الزامات ہیں؟
پراسیکیوٹر نے شعیب شاہین کے خلاف درج ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔ ایف آئی آر کے متن میں لکھا تھا کہ پی ٹی آئی کےکارکنوں نے اپنے لیڈروں کے ایما پر پولیس پر حملہ کیا، کارکنوں نے پولیس جوانوں سے اینٹی رائٹس گن چھینی۔ پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ درج ہے، اس میں ہم 90 دن کا ریمانڈ لے سکتے ہیں۔پراسیکیوٹر نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی جلسہ گاہ کے قریب بارودی مواد بھی برآمد ہوا تھا۔ اس کے باوجود کارکنوں کو اکسایا گیا اور وہ پولیس پر حملہ اور ہوئے۔
پراسکیوشن نے شعیب شاہین کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی۔پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں ان سے جرائم مین استعمال ہونے والی چیزیں برآمد کرنی ہیں اسی لیے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت ہے،،
شعیب شاہین کی جانب سے ریاست علی آزاد نے دلائل دیئے۔ ریاست علی آزاد نے مؤقف اختیار کیا کہ ایف آئی آر میں درج دفعات میں تو لکھا ہے کہ شعیب شاہین چور ہے، میرے بھائی کو کمانڈنگ للکار کا پتہ ہی نہیں۔ شعیب شاہین ایک بڑی سیاسی جماعت کا اہم ممبر ہے۔ کہا جارہا ہے کہ شعیب شاہین اور عامر مغل نے کارکنوں کو اکسایا جب کہ شعیب شاہین وہاں موجود ہی نہیں۔ ایسے تو جناب کا یا میرا نام لیں گے تو کیا ہم ملزم ہوں گے۔ یہ کس چیز کی تفتیش کررہے ہیں کی۔
شعیب شاہین کے وکیل نے کہا کہ یہ شعیب شاہین کے جسمانی ریمانڈ کا نہین بلکہ ڈسچارج کا کیس ہے۔ ریاست علی نے کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ شعیب شاہین کو تو پولیس کو ہی ڈسچارج کردینا چاہیے تھا۔ شعیب شاہین کے ریکارڈ پر ماضی میں کوئی مقدمات نہیں۔ شکر ہے انتظامیہ نے تحریک انصاف کو یونیفارم میں جلسہ کرنے کی ہدایت نہیں کی۔ مقدمہ میں سارا پاکستان پینل کوڈ درج کردیاہے۔
شعیب شاہین کی گرفتاری کی سی سی ٹی وی فوٹیج کمرہ عدالت میں دکھا دی گئی۔ وکیل صفائی ریاست علی نے کہا کہ شعیب شاہین پر ہدایت دینے کا الزام ہے اللہ پراسیکیوشن کو ہدایت دے،۔
پراسیکیوٹر راجا نوید نے ؤقف اختیار کیا کہ تحریک انصاف کا پورا گینگ ہے۔ شعیب شاہین کی حد تک کوئی ریکوری نہیں کرنا ہے۔ ان کی ہدایت پر یہ سب کیا گیا ہے اس لئے ریمانڈ مانگ رہے ہیں۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے استفسار کیا کہ جلسہ کب سے کب تک تھا؟ کیا خلاف ورزی کی ہے ؟ پراسیکیوٹرراجانوید نے بتایا کہ تحریک انصاف نے ایگریمنٹ کیاتھاکہ این او سی کی مکمل پابندی کریں گے،۔
اسلام آباد بار کے سیکرٹری حسن جاوید نے کہا پراسیکوشن کے پاس اگر مواد نہیں تو عدالت کے پاس اختیار ہے کہ موقع پر ملزم کو ڈسچارج کریں،
عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا، کتنے سے کتنے بجے تک جلسہ تھا؟
پراسیکیوٹر نے جواب دیا، ضلعی انتظامیہ سے معاہدہ ہوا جسکی خلاف ورزی کی گئی۔
، صدر اسلام آباد بار نے اس پر بتایا کہ جلسے کی اجازت دی جاتی ہے کہ چار سے سات بجے تک کا وقت ہے۔ پورے اسلام آباد کو کنٹینر زون بنایا گیا، انہوں نے خود قانون کی خلاف ورزی کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر جلسے کی اجازت دی گئی تھی۔ شعیب شاہین کو اس وجہ سے پیش نہیں کیا کہ انہوں نے خلاف ورزی کی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈھائی بجے تک شعیب شاہین کا پروڈکشن آرڈر جاری کیا تھا۔ شعیب شاہین کو کل سے کہاں رکھا تھا ہمیں کسی تھانے میں اندر ہونے کی اجازت تک نہیں تھی۔
وکیل صفائی اشتیاق احمد نے کہا شعیب شاہین کو اشتعال پھیلاتے ہوئے کس نے سنا؟ کمشنر سے این او سی لینے والے شعیب شاہین کیا کارکنان کو اشتعال انگیزی کا درس دیں گے؟ پراسیکیوشن تو اسلام آباد انتظامیہ کی ہونی چاہیے۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے سوال کیا کہ جلسے کا مقام کہاں تھا؟ پتھراؤ کس مقام پر ہوا؟ سنگجانی سے چھبیس نمبر چنگی سے کتنا فاصلہ ہے؟ کارکنوں کا چھبیس نمبر چنگی جانے کا مقصد کیاتھا؟
وکیل صفائی اشتیاق احمد نے کہا۔ جلسہ گاہ سے چھبیس نمبر چنگی 8 کلومٹر دور ہے۔ کارکنوں کا چھبیس نمبر چونگی پر جانے کا کوئی جواز ہی نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا، ن کے ساتھ دوسرا جو ملزم ہے وہ کہاں ہے؟ پراسیکیوٹر نے بتایا، عامر مغل دوسرا ملزم ہے جو گرفتار نہیں ہوا۔ علیم عباسی نے جج سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس وقت آپ کی عدالت تمام اسلام آباد بارز کی قیادت موجود ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے قانون اور میرٹ پر دلائل دئیے۔ پارلیمنٹ میں اگر گرفتاری پر نوٹس لیا جاسکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں۔ اس طرح چیمبرز میں جاکر گرفتار کرنا توہین ہے۔
عادل عزیز قاضی نے مؤقف اختیار کیا کہ کل دستاویزات یہ ہیں کہ ایک بندہ پل کے اوپر سے دوسرے کو میگا فون پر بتا رہا تھا اور شعیب شاہین کا نام آیا۔
ان کی ایف آئی آر میں بڑا واضح ہے کہ شعیب شاہین نے کونسا جرم کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ ایک کیس میں گرفتار تمام کیسز میں گرفتار۔
عدالت نے پراسیکیوٹر اور وکیل صفائی کو سننے کے بعد شعیب شاہین کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔