تحریر:اظہر تھراج
سات اکتوبر 2023 مشرق وسطیٰ ہی نہیں دنیا کے لیے ایک غیر معمولی دن ثابت ہوا۔ فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی طرف سے اسرائیل پر اس قدر اچانک، حیران کن اور بڑا حملہ ’نارملائزیشن‘ کے پھیلتے عمل میں بہت کچھ ’ابنارمل‘ کر دینے کا ’پوٹینشل‘ رکھتا تھا۔ گویا مشرق وسطیٰ میں سفر جس سمت میں اور جس رفتار سے چل رہا تھا، اب ان دونوں پر اثر پڑنا گزیر ہو چکا ہے۔
جمعہ اور ہفتے کی آخری پہر میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کی جانب سے ایک کے بعد ایک 5000 ہزار کے قریب راکٹ اسرائیل پر پھینکے گئے اور جس کے بعد صبح کی روشنی ہونے تک پوری دنیا کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان معمول کی ایک دو مہینے چلنے والی جھڑپیں نہیں بلکہ یہ اب مکمل جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔فلسطین کی مجاہدین کی جانب سےآج جنگ کو طوفان الاقصیٰ کا نام دیا جا رہا ہے۔ حماس کے طوفان الاقصیٰ آپریشن میں اسرائیلی ہلاکتوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے، اسرائیل پر غیر متوقع حملے کے بعد حزب اللہ بھی لبنان سے صہیونی ریاست کو نشانہ بنارہی ہے۔ حماس کے جنگجو اب بھی اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کے اندر موجود ہیں جہاں ان کی کئی مقامات پر اسرائیلی فوج سے دو بدو جھڑپیں ہورہی ہیں۔
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق حماس کے اچانک حملے کے بعد سے اسرائیلی فوج اب تک سنبھل نہیں پائی ہے۔اس لیے وہ اب بوکھلاہٹ میں جنگی قوانین کو بھی نظر انداز کر کےسکولوں ہسپتالوں اور دیگر جگہوں پر بھی اندھا دھند حملے کر رہا ہے، اس صورت حال کے نا صرف خطے بلکہ دنیا میں بدلتے حالات پر بھی گہرے اثرات ہوں گے۔روس یوکرائن جنگ، نے عالمی دنیا کو دو حصوں میں لا کھڑا کر دیا۔یہ جنگ روس کےلیے نہ صرف عزت کا مسئلہ بن گیا بلکہ اس جنگ نے کئی پراکسی وارز کے لیے راہ ہموار کی ۔اب اس جنگ نے دنیا کے درمیان ایک لائن کھینچ دی ہے جس میں لامحالہ صرف پوری دنیا کو واضح طور پر دو آپشنز میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔وہ دو آپشن یہ ہو گئے کہ یا تو آپ اسرائیل کے ساتھ ہیں یا پھر خلاف۔یہ ریڈ لائن ہی پوری دنیا کی تباہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔کیونکہ واضح طور پر چین اور روس بلاک کچھ دیگر چھوٹے ممالک جن میں ایران،لبنان ،ترکی اور دیگر ریاستیں شامل ہیں امریکہ کیخلاف صف آرا ہو چکے ہیں ۔
یہ ممالک براہ راست تو نہیں لیکن غائبانہ حماس اور حزب اللہ کی مدد کرنے سے رکیں گے نہیں کیونکہ یہ تمام ممالک حالیہ یا ماضی میں امریکا کی پالیسیوں اور پراکسی وارز کے ڈسے ہوئے ہیں ۔حال ہی میں یوکرائن اور روس کی جنگ بھی یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کے دباؤ اور اس پر روس کے سنگین اعتراضات کی وجہ سے شروع ہوئی ۔چین ورلڈ سپر پاور بننے کی تگ و دو میں ہے اس کی ترقی بھی امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور حالیہ دنوں میں پاک چائنہ تعلقات میں سرد مہری بھی اس بات کا عکاس تھی ۔
ضرورپڑھیں:حماس،اسرائیل جنگ میں تیزی،بچوں،6 صحافیوں سمیت704 فلسطینی شہید
اسی شام ،لبنا ن کے اندر ایران اور دیگر فریقوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگیں بھی پراکسی وارز ہی تھیں ۔اس طرح اب فلسطین بھی اب طاقتور ملکوں کا نیا میدان جنگ بننے جا رہا ہے،جنگ کا ہر کھلاڑی اپنی پرانی تمام ہزیمت کا بدلہ اٹھانے کی کوشش کرے گا لیکن اس دوران نقصان صرف اور صرف فلسطینیوں کا ہی ہوگا۔مسلم ممالک مذہبی اور اصولی مجبوریاں انہیں کسی بھی صورت فلسطین کے مخالف جانے سے روکیں گی۔
دوسری طرف اب سے کچھ روز قبل ہی کی بات ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ ایک نئے سفر کا آغاز کرنے جا رہے تھے۔سعودی عرب اور اسرائیل کے باقاعدہ تعلقات کا آغاز ہونے جارہا تھالیکن اس اچانک پیدا ہونے والے منظر نامے نےسب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔دوسرا اس حملے کے بعد سے کچھ پیدا ہونے والےسوالات انتہائی اہم ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ جنگ ایک سوچی سمجھی پلاننگ کا حصہ بھی ہو سکتی ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی ایک تنظیم حماس اسرائیل کی اس ایجنسی موساد کی ناک تلے اتنی بڑی کاروائی کر سکتی ہے ،موساد وہ ایجنسی ہے جس میں دنیا کے بڑے سے بڑے ممالک جن میں امریکا اور یورپ کی ریاستیں شامل ہیں۔ اس سے مرعوب رہتی ہیں ۔
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے پاس دنیا کا جدید ترین انٹر نیٹ سسٹم ہے جو کہ پوری دنیا میں جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاتا ہےاس نظام کی بدولت آپ کے زیر استعمال ٹیلی فون اور لیپ ٹاپ یہاں تک کسی بھی الیکٹرونکس اور الیکٹرک چیز کے ذریعے آپ پر نگرانی رکھی جا سکتی ہے۔ ایسے ’قابل رشک‘ اور ذہن کو حیران کردینے والی ٹیکنالوجی کے ’موجد‘ کو یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ فلسطینیوں کی ایک تنظیم کیا منصوبہ بنارہی ہے؟ ہفتے کے روز جو ہوا وہ ’اچانک‘ ہوہی نہیں سکتا تھا۔ مزاحمت کار غزہ کی پٹی سے غباروں کی طرح فضا میں اڑکر اسرائیل کے جنوب میں واقع ان بستیوں میں اترے جہاں کی زمین کو فلسطینیوں سے چھین کر صہیونی نسل پرستوں نے اپنی آبادی میں بدل دیا تھا ،فضا کے علاوہ کئی مزاحمت کار سمندر کے ذریعے بھی ایسی بستیوں میں داخل ہوئے۔یہ سب واقعات حیران کن تھے۔
یہ بھی پڑھیں:مسجداقصیٰ کی بے حرمتی ختم نہ ہو نے تک اسرائیل سے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے: حماس
ا ن سب سے بڑا کارنامہ جو حماس نے سرانجام دیا وہ اس نظام کو مفلوج کر دینا جو صہیونی ریاست کو محفوظ بنانے کے لیے امریکا نے بھاری بھر کم رقم سے کھڑا کیا تھا۔جسے Iron Domeکا نام دیا جاتا ہے۔اس خودکار نظام کا کام یہ تھا کہ اسرائیل کی جانب آنے والے ہر راکٹ اور میزائل کی نشاندہی کے بعد ممکنہ ہدف رکھنے والے علاقوں میں سائرن بجانا تاکہ عوام زیر زمین چلے جائیں اور اس کے بعد یہ آنے والے میزائلوں کو فضا میں روک کر پاش پاش کر دیتے ہیں ۔لیکن اس بار غزہ کی پٹی سے بیک وقت پانچ ہزار میزائل اسرائیل کی جانب داغ دیے گئے۔ حملہ آور میزائلوں کی تعداد اور بارش کی طرح مسلسل آمدنے آئرن ڈوم کے اوسان خطا کردیے۔ اسرائیل کے دفاع کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی سے بنایا نظام کھوکھلے ڈھانچے کی صورت ڈھیر ہوگیا۔یہ سب کیسے ممکن ہو گیا ؟ اسرائیل کے قابل رشک تصور ہوتے جاسوسی نظام کو پچاس سال بعد ایسے ’جھٹکے‘ سے نبردآزما ہونا پڑا ہے۔
اس سے قبل1973ءمیں بھی ایسا ہی واقعہ ہوا تھا جب مصر اور شام کی افواج نے زیرک اور خفیہ رکھی منصوبہ بندی کے بعد اسرائیل کو ’یوم کپور‘ کی مذہبی تعطیل کے دوران بوکھلادیا تھا۔ اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل شکست کھاکراپنے خاتمے کی جانب بڑھتا دکھائی دیا تھا لیکن چند دنوں بعد اسرائیل نے اپنے اتحادیوں سے آئی کمک کی وجہ سے جنگ کاپانسا پلٹ کررکھ دیا۔لیکن اب کی بار اسرائیل کی جابر ریاست کو کسی دو ممالک کی منظم افواج نے بے نقاب نہیں کیا ۔ یہ حیران کن واقعہ ایک تنظیم کے ہاتھوں ہوا ہے جسے گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل تباہ کرنے کی کاوشوں میں مصروف رہا ہے۔
ہفتے کے دن اس تنظیم نے جس انداز میں اسرائیل کو نشانہ بنایا اس کی تیاری کے لیے یقینا کئی ماہ درکار تھے۔سوال اٹھتا ہے کہ دنیا کی بے شمار آمرانہ حکومتوں کو ’باغیوں‘ پر نگاہ رکھنے اور انھیں مختلف ہتھکنڈوں سے کنٹرول کرنے کے حربے سکھانے والااسرائیل اپنے ہی ملک کے خلاف تیار ہوتے منصوبے کا بروقت سراغ کیوں نہیں لگاپایا؟کیا یہ مبینہ جنگ غزہ کی پٹی میں کئی دہائیوں سے جانوروں کی طرح محصور کیے 20لاکھ فلسطینیوں کو نہایت سفاکی سے موت کے منہ میں دھکیلنے کا پلان تو نہیں ۔جس کے بعد ظاہر یہ کیا جائیگا کہ پہل حماس کی جانب سے کی گئی ۔ٹی وی پر دکھائی جانیوالے زیر حراست کمانڈر،قید کی گئی عورتوں کو بطور ثبوت پیش کیا جائیگا اور اس نسل کشی کا جواز فراہم کیا جائے گا۔