پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کیس میں فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل

10 Oct, 2023 | 12:43 PM

Imran Fayyaz

بابر شہزاد ترک، امانت گشکوری: منگل کے روز پریکٹس اینڈ پروسیجرز کیس کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں دن بھر  ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل کو سنا گیا، عدالت کا وقت ختم ہونے کر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل بدھ کے روز  صبح  11:30 تک ملتوی کر دی۔  چیف جسٹس نے آج کی سماعت کی کارروائی کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا۔  کل اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔

فیصل صدیقی کے وقفہ کے بعد دلائل

 پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو   ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے روسٹرم پر آ کر اپنےدلائل آگے بڑھائے۔ اس موقع پر جسٹس مظاہر نقوی نے دریافت کیا کہ  اٹارنی جنرل سے ایکٹ پر قانون سازی کا پارلیمنٹری ریکارڈ منگوایا گیا تھا۔فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ  ریکارڈ کے معاملے پر جواب اٹارنی جنرل ہی دے سکتے ہیں،  دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا آئین میں اپیل کا حق دینے پر کوئی پابندی ہے یا نہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا، آئین میں چار سو مرتبہ لاء کا لفظ استعمال ہوا ہے، کیا آرٹیکل 191 میں لاء کا مطلب قانون سازی کا اختیار دینا ہے اور باقی شقوں میں مختلف ہے؟  آئینی تشریح کیلئے کسی نہ کسی پرنسپل پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔آپ کون سے پرنسپل پر انحصار کر رہے ہیں؟

 فیصل صدیقی : عدالت کو اتنی تفصیلات میں جانے کی یہ بجائے دیکھنا چاہئے کہ سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل ہو سکتی ہے یا نہیں۔

 جسٹس جمال مندوخیل نے کہا، اپیل تو آئین میں پہلے بھی دی گئی ہے،

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا، آئین میں پارلیمنٹ کو براہ راست اختیار کہاں دیا گیا ہے؟

اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ہدایت کی کہ ایک وقت پر ایک شخص بات کرے۔

 فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل آگے بڑھاتے ہوئے کہا، رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے،  رولز بنانے کو مگر قانون سے مشروط کیا گیا ہے، جسٹس منیب نے آئینی تاریخ کی بات کی تھی اس تناظر میں بات کروں گا۔

 جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ وہ کیا ضروریات تھیں جن کی بنیاد پر پارلیمنٹ نے یہ ایکٹ بنایا؟

 جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا، اپیل کا حق آئینی ترمیم سے ہی دیا جا سکتا ہے،۔

 فیصل صدیقی ایڈووکیٹ: اگر یہ اپیل غیر آئینی ہے تو لاریفارمز میں دی اپیل بھی غیر آئینی ہے۔

 جسٹس اعجاز الاحسن: وہ والا معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے، دو غلط مل کر ایک درست نہیں بنا دیتے۔


 دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی کے ازخود نوٹس اختیار سے متعلق اہم ریمارکس 

جسٹس مسرت ہلالی نےریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 191 کی لینگوئیج سبجیکٹ ٹو لا سے شروع ہوتی ہے، کیا ان الفاظ سے پروسیجر میں بہتری کی گنجائش چھوڑی گئی؟ آرٹیکل 184/3 جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ:  کیا سپریم کورٹ کا بینچ بھی رولز کا پابند ہے؟

 فیصل صدیقی ایڈووکیٹ: میرا خیال ہے پابند ہے۔

چیف جسٹس: انتظامی طور پر بنائے گئے رولز جوڈیشل اختیاراستعمال کرتے ہوئے بھی بائنڈنگ ہیں؟  کوئی بینچ بیٹھ کر رولز کو غیر آئینی کہہ سکتا ہے؟  کیا بینچ 1980 کے رولز سے متعلق آرڈر دے سکتا ہے؟ اگر پارلیمنٹ بھی نہیں کر سکتی، بنچ بھی نہیں کر سکتا تو پھر سارا اختیار ایک شخص کے پاس رہ جاتا ہے۔

 فیصل صدیقی ایڈووکیٹ: رولز کی آئینی حیثیت پر بینچ آرڈر دے سکتا ہے،


  جسٹس منیب اختر کے سوالات پر  چیف جسٹس نے ایک بار پھر انہیں ٹوک دیا

چیف جسٹس:  پہلے میرے سوال کا جواب دیا جائے بعد میں دوسرے سوال پر آئیں،  میں نہیں چاہتا میرے سوال کے ساتھ کچھ اور آئے،  میں نے آج سب سے کم سوال پوچھے ہیں۔ ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا،   ‏آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ چیف جسٹس صاحبان اپنا کام نہیں کرتے؟  اب جب قانون بن گیا ہے تو ہم کہتے ہیں ہم کسی کو جوابدہ نہیں ہیں۔ کئی کئی سال کیس نہیں لگتے اور ہم کہتے ہیں ہم نہیں لگاتے، ہماری مرضی۔ ہم لوگ اپنا احتساب کیوں نہیں کرتے اور جب کوئی کرتا ہے تو ہمیں اعتراض ہو جاتا ہے۔  یہ قانون جو آیا ہے آپ کہتے ہیں کہ 99 فیصد خامیوں کو دور کرتا ہے، ایک فیصد صرف اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے اس میں خامی رہ گئی ہے۔ آپ صرف ایک فیصد پہ اٹک گیے 99 فیصد بہتری کو نہیں دیکھ رہے۔

 جسٹس عائشہ ملک: اپیل کا حق کسی کو ملنا ہے اور کسی نہیں، جس کو اپیل کا حق نہیں ملے گا اسکا حق تو مجروح ہوگا۔ اپیل کا حق قانون میں بھی ہے اور شریعتِ میں بھی ہے۔

جسٹس شاہد وحید :  اپیل کا حق اس وقت ہے جب ایک جج بنچ کی تشکیل کا فیصلہ کرتا یہے۔ جب 3 ججز کی کمیٹی فیصلہ کرے گی تو پھر اپیل کا انحصار اس پر ہوگا۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ: ماضی میں کب آخری فل کورٹ بنچ بیٹھا، 21 ویں ترمیم کا آخری فیصلہ کیا گیا تھا اس کے خلاف تو اپیل نہیں آئی،  جب یہ قانون آگے چلے گا تو پھر مستقبل کے معاملات سلجھیں گے۔ 


 وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل

جسٹس مظاہر نقوی نے وکیل ایم کیو ایم سے مکالمہ کے دوران کہا  کیا کبھی ایسی ٹیم کو جیتتے دیکھا ہے جس کے 3 کپتان ہوں؟

 جسٹس جمال خان مندوخیل نے لقمہ دیا، میں بھی سپورٹس مین رہ چکا ہوں، ٹیم میں کپتان اور نائب کپتان دونوں ہوتے ہیں۔

 جسٹس اطہر من اللہ نے کہا،  کیا مشکلات کے مدنظر آرٹیکل 191 کے تحت ہم رولز بنا سکتے ہیں،

جسٹس شاہد وحید نے کہا، 191 کے تحت فل کورٹ میٹنگ کون بلائے گا۔

 فیصل صدیقی  ایڈووکیٹ نے جواب دیا، فل کورٹ کی میٹنگ چیف جسٹس بلائے گا۔

 جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا، کیا دوسرے ججز میٹنگ بلا کر رولز بنا سکتے ہیں؟

 جسٹس محمد علی مظہر  نے ریمارکس دیئے، فل کورٹ بلانے کا رولز میں تو کوئی ذکر نہیں۔

 وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ ایک پریکٹس ہے،

 چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے آوٹ آف دی باکس سوال کیا،  لائٹر نوٹ کے طور پر پوچھ رہا ہوں آپکو کتنی فیس ملی ہے؟

 فیصل صدیقی نے جواب میں کہا، اس کا جواب دے کر میں خود کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا،

جسٹس جمال مندوخیلنے استفسار کیا، آپکے مطابق پارلیمان کے پاس اختیار ہے؟ 

 فیصل صدیقی : بالکل میرے نزدیک پارلیمان کا اختیار ہے تاہم پارلیمان ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو رولز اور عدلیہ کی آزادی کے بر خلاف ہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن: کیا پارلیمان کہہ سکتی ہے کہ کمیٹی میں تین نہیں پانچ ججز ہوں،۔

اسی دوران عدالت کا وقت پورا ہونے پر  سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل 11:30 تک ملتوی کر دی۔
 چیف جسٹس نے آج کی سماعت کی کارروائی کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا۔
 کل اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں گے

قبل ازیں منگل کی صبح سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو  ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ دلائل  دیتے ہوئے کہا  کہ میں اس وقت کیس میں فریق نہیں ہوں، عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا ہوں۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ، سوال ہوا کہ کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں، عدالت کو دو فیصلوں پر دلائل دوں گا،ایک بار کاکڑ کیس کا حوالہ دوں گا، دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے متعلق فیصلے کا حوالہ دوں گا۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا  کہ ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں،جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 میں "لا" کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، کنفیوژن ہے کہ آرٹیکل 191 میں لاء کے لفظ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ رولز میں ردو بدل ہے یا نہیں،آرٹیکل 191 میں لفظ "لاء" کا مطلب ہے کہ وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے۔سپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے۔

 جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ اگر لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہوتا تو آئین سازوں نے بھی یہی لکھا ہوتا، جسٹس اعجازالاحسن  بولے کہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں،  چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ آپ ہر سوال کا جواب نا دیں،مسٹر صدیقی، آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں،اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں ہے، چیف جسٹس کی وکیل کے مسکرانے پر تنبیہ کردی ۔

وکیل کو دلائل میں کوئی دلیل تو پوری کرنے دیں، چیف جسٹس کی ساتھی ججوں کو تنبیہ

  چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ4 سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں اور کئی کیسز التوا کا شکار ہو رہے ہیں،میری اپنے ساتھی ججز سے درخواست ہے کہ اپنے سوالات کو روک کر رکھیں،بینچ میں ہر کوئی سوال کرنا چاہتا ہے لیکن وکیل کی کوئی دلیل پوری تو ہونے دیں، دوران سماعت بار بار سوال پوچھنے پر چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کو روک دیا ۔

  جسٹس منیب اختر  نے کہا کہ میں بھی اس عدالت کا ایک جج ہوں،سوال پوچھنا ایک جج کا حق ہے، چیف جسٹس پاکستان بولے کہ آپ اپنے سوال ضرور پوچھیں  لیکن دلاٸل مکمل ہونے کے بعد۔اگر ہم نے پہلے ہی اپنے ذہن بنا لیئے ہیں تو ہم فیصلے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔

 جسٹس منیب اختر بولے کہ افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے بار بار ٹوکا جا رہا ہے،وکیل کو کون ٹوک رہا ہے۔چیف جسٹس کے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر  نے سوال  کردیا،بولے کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا کیا مطلب ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اس قانون سے سپریم کورٹ کی اندرونی ورکنگ میں مداخلت ہوئی یا نہیں؟

 گزشتہ روز سماعت میں چیف جسٹس قاضی قائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی ہے، اگر کوئی مریض مر رہا ہو تو کیا میڈیکل کی سمجھ رکھنے والا صرف اس لیے مریض کو مرنے دے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے ؟

 چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کو کہتے ہیں کہ نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربراسٹیمپ بنا دیتا ہے۔

مزیدخبریں