(ویب ڈیسک)عصر حاضر میں تقریباً ہر دوسرا شخص اے ٹی ایم کارڈ کا استعمال کرتے نظر آتا ہے، اس سہولت کے پیش نظر صارفین کو رقم نکلوانے کے لئے لائنوں میں نہیں لگنا پڑتا، اے ٹی ایم کارڈ کے ایکٹو ہونے کے بعد اس کے لئے 4 ہندسوں کے پن کوڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
آٹومیٹڈ ٹیلر مشین المعروف اے ٹی ایم کا استعمال تو اب لگ بھگ ہر فرد ہی کرتا ہے اور اکثر اس سے رقم نکلوانے کے لیے استعمال ہونے والے کارڈز میں 4 ہندسوں کا پن کوڈ استعمال ہوتا ہے۔ بہت سے صارفین اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ اے ٹی ایم کا پن کوڈ 4 ہندسوں کا کیوں ہوتا ہے؟اس کا جواب ایک خاتون کی خراب یادداشت میں چھپا ہوا ہے۔
5 دہائیوں سے زائد عرصے پہلے جان شیپرڈ بیرن نامی برطانوی موجد کو ایک ایسی مشین کا خیال آیا جس سے چاکلیٹس کی بجائے پیسوں کا حصول ممکن ہوسکے۔یہ خیال آتےہی 1967 میں لندن میں پہلی آٹومیٹڈ ٹیلر مشین ( اے ٹی ایم) مشین نصب کی گئی۔
مگر مشین کی تیاری کے ساتھ ساتھ جان شیپرڈ کو یہ احساس بھی ہوا کہ صارف کے تحفظ کے لیے بھی کچھ کرنا ہوگا تو اس کا حل پن کوڈ کی شکل میں نکالا گیا۔اپنے پرانے فوجی نمبر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جان شیپرڈ نے ابتدائی طور پر 6 ہندسوں کے کوڈ کو تیار کیا۔
مگر ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ 'میری اہلیہ کا کہنا تھا کہ وہ صرف 4 ہندسوں کو ہی یاد رکھ سکتی ہے اور کیرولین کی وجہ سے ہی 4 ڈیجٹ پن کوڈ عالمی معیار بن گیا'۔
کیرولین کی کمزور یادداشت دنیا بھر کے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو آسان بنانے کا باعث بنی مگر یہ ذہن میں رہے کہ اس کے باعث ہیکرز کو صرف 10 ہزار نمبروں کے امتزاج پر غور کرنا ہوتا ہے۔
ویسے یہ تعداد بھی کافی زیادہ ہے کیونکہ اکثر اے ٹی ایم مشینوں میں پن کوڈ متعدد بار ٹائپ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، جان شیپرڈ نے زندگی میں متعدد چیزوں پر کام کیا مگر انہیں اے ٹی ایم اور پن کوڈ کی وجہ سے ہی جانا جاتا ہے۔
مگر انہیں اس کی اہمیت کا احساس اس وقت ہوا جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ تعطیلات منانے تھائی لینڈ گئے، جہاں ایک کاشتکار نے اپنی ٹوپی سے کارڈ نکال کر ایک کیش مشین کو استعمال کیا۔
اس وقت جان شیپرڈ کو احساس ہوا کہ انہوں نے کسی حد تک دنیا کو بدل دیا ہے۔اب دنیا بھر میں لاتعداد اے ٹی ایم مشینیں نصب ہیں یہاں تک کہ انٹارکٹیکا میں بھی اسے نصب کیا گیا ہے۔