(عرفان ملک)ڈاکو، چور پکڑے جاتےہیں لیکن وہ چھوٹ کیسےجاتے ہیں؟سٹی فورٹی ٹو نےکھوج لگا لیا،شہر میں جرائم پیشہ افراد کی ضمانتیں کرانے والے31 ایسے افراد کا ڈیٹا سامنےآیا جنہوں نے ہزاروں ملزمان کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے،ایک ایک ضامن نےسینکڑوں افراد کی جعلی دستاویزات پر ضمانتیں کرا کرجیل سےملزمان کو آزاد کرایا۔
تفصیلات کے مطابق قانون کےہاتھ بہت لمبےہوتےہیں یہ ڈائیلاگ تو بہت سنا ہو گا لیکن ان ہاتھوں سےبھی کسی کے ہاتھ لمبے ہیں۔ قانون توڑنے والے جب قانون کےہاتھوں میں جکڑے جاتے ہیں تو کس طرح قانون کے ساتھ کھلواڑ کر کے چند ہی روز میں پھر اس جرم کی وادی میں آجاتے ہیں، پولیس کی جانب سےرواں سال9 ہزار سے زائد ڈاکو اور چور پکڑے گئے،جن کو ایک گروہ کی سرپرستی حاصل تھی اور یہ گروہ تھا جعلی ضامنوں کا۔
ایسا گروہ جو جعلی مچلکےجمع کرا کر ڈاکووں چوروں کی ضمانتیں کراتا تھا،ان میں سے9ملزمان ایسے تھے جو خود جرائم پیشہ افراد کی لسٹ میں شامل تھے۔ سب سے زیادہ ضمانتیں کرانےوالا شخص آصف علی تھا جس نے682 ملزمان کی ضمانتیں کرائیں،محمد اعجاز جو خود ڈکیتی کےمقدمات میں ملوث رہا اس نے 543 ملزمان کو ضمانت پررہا کرایا، ڈکیتی مقدمات میں ہی ملوث گلزار احمد نے440 ڈاکووں،ملزم عبد الکبیرنے385 ،ملزم اسد منیر نے 326،ملزم محمد ناظم نے272 ،محمد شہباز نے 233 اور رمضان حسین نے145 ملزمان کی ضمانتیں دیں۔
چند جرائم پیشہ افراد نےاس نظام کو یرغمال بنا رکھا ہےجو قانون کو توڑنا بھی جانتےہیں اوراس کا استعمال بھی لیکن ایسے افراد کےبارے میں قانونی ماہرین کا کہناتھا کہ ایک فرد کسی ایک مقدمہ میں ملزم کی ضمانت دے سکتا ہے،لیکن سینکڑوں افراد کی ضمانت کرانے والے تومچلکے بھی جعلی جمع کراتےتھے۔
پولیس حکام نےاعلیٰ عدلیہ کو تمام ریکارڈ بھجوا دیاہے،جرم بڑھنےکی وجہ بھی اس فرسودہ نظام کو بتایا جا رہا ہے،اگراس پر قابو پا لیا جائے توجرم کرنے سے بھی لوگ ڈریں گےاورقانون کا احترام بھی ہو گا۔