تحریر،عامر رضا خان:کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے بہت عرصے سے ہم لکھ رہے تھے کہ خدارا اس بے لگام ،فحش گو، کھلنڈرے ، جھوٹے سوشل میڈیا کو کوئی تو لگام دے لیکن کسی نے اس پر کان نا دھرے یہاں تک کہ سانحہ9 مئی ہوگیا جس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے سب سے زیادہ گمراہی پھیلائی گئی لفظوں کی جو حرمت تھی اس کا فرق اس میڈیم نے ہٹا دیا کوئی اس کو ریگولیٹ کرنے والا نہیں تھا جس سے جتنا بلند اور جتنا بڑا جھوٹ بولا جاسکتا تھا اُس نے بولا اور مسلسل بول رہا ہے ،روزانہ صبح آپکو گروپ سے ایسے ایسے جہلا کے وی لاگ موصول ہوتے ہیں کہ جنہیں" ابو جہل بھی ابو ابو کہتا ہوگا" یہ پکا منہ بنا کر ایسے بات کرتے ہیں کہ جیسے ڈاکٹر عبدالقدیر سے زیادہ سائنس کو ، ڈاکٹر اسرار احمد سے زیادہ مذہب کو اور ڈاکٹر محبوب الحق سے زیادہ معاشیات کو سمجھتے ہوں یوں، جہلا چند غریبوں کی بے علمی کا فائدہ اٹھا کر ایسا ایسا چسکا لگاتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا میں تو کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جھوٹ پھیلانے کے اس کاروبار میں جو ڈالر ملتے ہیں اس کا کیا حساب دیا جائے گا ،جو بہتان باندھے جاتے ہیں جو الزامات لگائے جاتے ہیں، یہ بھی تو نامہ اعمال میں لکھیں جائیں گے ، کوئی تو ہے جو اس جھوٹ کے کاروبار کا ڈیٹا بینک بنا رہا ہے ، جو زور لگا لگا کر لوگوں سے بولا جارہا ہے۔ اس کا عذاب کس کے سر ہوگا ، جو اس جھوٹ کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرہ رے ہیں اُن کی سزا بھی کیا کم ہوگی ، یوٹیوبرئیے ، ٹک ٹاکرئیے ،انسٹاگرامیے ، یہ ایکس والے ، فیس بُکیے کیا سمجھتے ہیں کہ یہ ناقابل گرفت ہیں ،کیا جس کے پاس کیمرے والا فون اور ایک مائیک ہے وہ صحافی ہے ، ان سے مطلب ہی پوچھ لیں صحافی ہونے کا صحیفہ لکھنے والا صحاٖفی کون سا صحیفہ جو سچ کا صحیفہ ہو جھوٹ کے لیے تو "کزب بیانیہ " کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اس طرح ان جھوٹوں کو صحافی کے بجائے "کزابی" لکھا اور پکارا جائے تو شائد اس ملک کا کوئی بھلا ہو ۔
ضرورپڑھیں:کھاریاں دے کھسرے ، تے اڈیالہ دا گورو
کہ یہاں اب جھوٹ اور سچ کے مابین فاصلہ بڑھتا چلا جارہاہے جھوٹ اتنے زور سے بولا جارہا ہے کہ سچ اُس کی چیخ میں دفن ہے ، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم مجمع باز قوم کو روز ایک ایسا ہی مصالحہ چاہیے ہوتا ہے جس کا فائدہ یہ "جھوٹ گر " (جادوگر ہوسکتا ہے تو جھوٹ گر کیوں نہیں) خوب اٹھاتے ہیں ،کبھی کہتے ہیں کہ آج خان نے معاہدہ کرلیا اور اگلے ہی لمحے بولیں گے، خان کا صاف انکار کوئی نہیں پوچھتا کہ بھائی تجھے یہ خبر کہاں سے آئی؟ یہاں تک کے آرمی چیف اور وزیر اعظم کی ون او ون ملاقات کا احوال بھی یوں بتاتے ہیں کہ جیسے یہ کسی ایک کی "انڈر پینٹ" میں دبکے بیٹھے یہ سب سُن رہے تھے ، بس ذرائع ساتھ لگائیں اور اللہ اللہ خیر صلہ کوئی پوچھنے والا نہیں سچ کا قتل بھی کرو اور صحافی بھی کہلاؤ ،پکڑے جاؤ تو بکاؒ تنظیمیں پہلے سے تیار کہ اس صحافی نما کو رہا کرو۔
یہ سب میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم کرتے ہوئے اسے وزارت آئی ٹی کے سپرد کردیا ہے۔
خبر کے مطابق سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلیے وزیراعظم نےپیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم کی منظوری دیدی ہے۔ مجوزہ پیکاایکٹ 2024کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی کے قیام کی منظوری بھی دیدی گئی نیا تجویز شدہ پیکا بل 2024 کابینہ کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، پیکا قانون ترمیمی بل کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کابینہ کی قانونی اصلاحات کمیٹی نے مجوزہ ترمیمی بل اور ڈیجٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی کے قیام کی تجویز دی تھی مجوزہ پیکا ترمیمی بل 2024 اور ڈیجٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی کی انچارج وزارت آئی ٹی ہوگی، اتھارٹی ڈیجیٹل حقوق سے متعلق معاملات پر حکومت کو مشاورت دے گی۔ ڈیجیٹل اتھارٹی انٹرنیٹ کے ذمہ دارانہ استعمال اور ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنائیگی اتھارٹی ایک مثبت ڈیجیٹل ایکو سسٹم کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ تعاون میں سہولت فراہم کرے گی۔ مجوزہ ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پر قانون کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے گی، ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی نئے پیکا قانون کی خلاف ورزی کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کرے گی، ڈیجیٹیل رائٹس اتھارٹی ملوث افراد اورگواہوں کو طلب کر سکے گی۔ ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی ڈیجیٹل حقوق کے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے قواعد بھی بنا سکے گی ،آن لائن دائرے میں صارف کی حفاظت کو فروغ دینے اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ایک محفوظ اور قابل اعتماد ڈیجیٹل ماحول بنائے گا۔ اس سے پہلے وزارت آئی ٹی نے نیشنل سائبرکرائم انویسٹگیشن اتھارٹی بنانےسے متعلق ایس آر او جاری کیا تھا جس کے تحت جھوٹ کی تحقیقات بھی ہوگی۔ عزتیں اچھالنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں بھی لایا جائے گا ،اہم شخصیات کو تضحیک کا نشانہ بنانے والوں کو بھی گرفت میں لایا جاسکے گا ۔
یہ بھی پڑھیں:9 مئی ، عرس ، برسی یا سالگرہ؟
پاکستان کوئی پہلا ملک نہیں ہے جس نے بے لگام سوشل میڈیا کو لگام ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کو یاد تو ہوگا کہ ابھی چند دن پہلے امریکہ نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی سعودی عرب میں آج بھی کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ روس چین میں بھی سوشل میڈیا پر جھوٹ بولنے کی سزا مقرر ہے لیکن پاکستان میں اس ڈالر کے بھوکوں کو اپنے ہی بھائیوں پر جھوٹ بولنے بہتان تراشی اور الزام بازی کی کھلی اجازت چاہیے۔ مشہور سٹیج ڈرامہ فیقا ان امریکہ میں افتخار ٹھاکر ، سہیل احمد فیقے سے پوچھتا ہے چار سال سے مکینک کا کام سیکھنے جا رہے ہو کیا سیکھا تو فیقا معصومیت سے کہتا ہے " اب میں دکان سے سیدھا گھر نہیں آجاتا " شکر ہے پاکستانی حکومت نے 75 سال میں اتنا تو سیکھ لیا کہ سیدھا گھر کیسے آیا جاسکتا ہے لیکن مکمل کام سیکھنا ، سچ کی قدر کرنا اور جھوٹ گروں سے بچنا ابھی بہت دور ہے ۔