ویب ڈیسک: اسلام آباد میں احتساب عدالت نے عبدالقادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے 14 دن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر سماعت کر کےفیصلہ محفوظ کر لیا۔ بدھ کی صبح چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو عبدالقادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں احتساب عدالت کے سامنے پیش کرکیا گیا۔ نیب نے عمران خان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کردی۔نیب کی جانب سے عدالت میں عمران خان کی گرفتاری کی وجوہات پیش کردی گئیں۔ نیب کی طرف سے عمران خان کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی اورر عددالت کو بتایا کہ ملزم حراست میں رکھےجانے کے لئےجسمانی طور پر مکمل فٹ ہے۔ دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث، علی بخاری اور بیرسٹر گوہر عدالت میں پیش ہوئے اور عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی۔ نیب کی طرف سے انویسٹی گیشن آفیسر میاں عمر ندیم بھی عدالت میں موجود تھے۔ مقدمہ کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کر رہے ہیں۔
احتساب عدالت اسلام آباد میں القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں وقفے کے بعد عدالتی کارروائی کا دوبارہ آغاز ہوا، جس میں عمران خان اپنے وکلا کے ہمراہ دوبارہ پیش ہوئے۔ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی نمائندگی خواجہ حارث، بیرسٹر علی گوہر اور ایڈووکیٹ علی بخاری نے کی جب کہ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی، اسپیشل پراسیکیوٹر رافع مقصود اور نیب کے پراسیکیوٹر سردار ذوالقرنین عدالت میں موجود تھے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے احتساب عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل عمران خان کی گرفتاری کے لیے مناسب طریقہ نہیں اپنایا گیا ۔ نیب نے نوٹس تو بھیجا لیکن شکایت کو کب ریفرنس میں تبدیل کیا گیا یہ نہیں پتہ ۔ عمران خان کو کئی دیگر مقدموں میں گھسیٹا جارہا ہے۔ میرا مؤکل شامل تفتیش ہوکر تحقیقات میں تعاون کرے گا۔ جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو گرفتاری کے وقت وارنٹ دکھائے گئے تھے، اس موقع پر عمران خان نےمداخلت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے وارنٹ نیب دفتر پہنچنے پر دکھائے گئے۔پراسیکیوٹر نے بتایاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ گرفتاری کے معاملی کی مکمل چھان بین کر کے گرفتاری کو صحیح قررا دے چکی ہے۔
پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو یقین دہائی کروائی کہ عمران خان کے وکلا کو متعلقہ دستاویزات فراہم کی جائیں گی۔ نیب پرایسیکیوٹر نے کہا کہ یہ کرپشن کا کیس ہے جس کی تحقیقات برطانیہ کی تحقیقاتی ایجنسی این اے سی نے کی۔ اس کیس میں ضبط کی گئی رقم حکومت پاکستان کو منتقل ہونا تھی۔ نیب پراسیکیوٹر ککے دلائل آخری اطلاعات موصول ہونے تک جاری تھے۔