(قیصر کھوکھر) پنجاب میں نگران حکومت نے چارج سنبھال لیا ہے اور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاکراپنا کام شروع کر دیا ہے۔ نگران حکومت کو بہت ساری پابندیوں کا بھی سامنا ہے ۔ایک جانب پی ٹی آئی مطالبہ کر رہی ہے کہ شہباز شریف کی ساری انتظامیہ کو تبدیل کیا جائے ،لیکن نگران حکومت کسی بھی افسر کو الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر تبدیل نہیں کر سکتی ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے جس میں نگران حکومتوں کے مینڈیٹ اور اختیارات کا تعین کیا گیا ہے۔
نگران حکومت کوئی پالیسی ساز فیصلہ نہیں کر سکتی ہے۔ اس کا دورانیہ بڑا ہی مختصر ہے۔ نگران حکومت کو روز مرہ کے معاملات چلانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ نگران حکومت نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر صرف الیکشن کرانا ہے۔ نگران حکومت کوئی ترقیاتی یا غیر ترقیاتی کام شروع نہیں کر سکتی ہے۔ عملی طور پر اس وقت الیکشن کمیشن کی حکومت ہے نہ کہ نگرانوں کی۔ اگر نگرانوں کو الیکشن کمیشن کی ایکسٹینشن کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ کیونکہ نگران بجٹ سے لے کر ٹرانسفر پوسٹنگ کے سلسلہ میں الیکشن کمیشن کے پابند ہیں۔
نگرانوں کا عوامی فلاحی کام، انتظامی اور مالی معاملات اور دیگر دائرہ کار میں نگرانوں کو محدود کیا گیا ہے۔ نگرانوں کا ایک روایتی قسم کا رول ہے ان سے کسی بھی قسم کی توقع رکھنا ایک دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے لیکن عملی طور پر کچھ برآمد ہونا ناممکن ہے۔ نگران حکومت کے سامنے سب سے بڑا ٹاسک موجودہ بیوروکریسی کے تبادلے کرنا ہے ۔ پنجاب کی بیوروکریسی میں مسلم لیگ ن کے ہم خیال افسران کی اکثریت اس وقت تمام کلیدی اور اہم ترین آسامیوں پر برا جمان ہے اور وہ گزشتہ دس سال سے ایک ہی سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک ہیں۔
چیئرمین پی اینڈ ڈی جہانزیب خان، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم میجر (ر) اعظم سلیمان خان، ایڈیشنل چیف سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو میاں مشتاق احمد، چیئرمین وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم عبدالجبار شاہین، سیکرٹری پرائمری ہیلتھ کیئر علی جان خان، سیکرٹری انرجی اسد رحمن گیلانی، کئی کئی سالوں سے مسلم لیگ ن کی حکومت سے سپیشل تعلق کی وجہ سے مشہور ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ نگران حکومت ان افسران کو پنجاب سے واپس وفاق کے پاس کیسے بھیجتی ہے اور کس طرح ان کو ہٹایا بھی جاتا ہے یا کہ نہیں، کیونکہ اس وقت آئی جی پولیس کیپٹن (ر) عارف نواز اور چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید کا تبادلہ بھی زیر غور ہے اور کہا جا رہا ہے کہ نگران حکومت اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن سے رابطہ کر رہی ہے۔
موجودہ نگران حکومت کو الیکشن کمیشن کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ نگران وزیر اعلیٰ پر ابھی صرف مسلم لیگ ن نے اعتراض کیا ہے اگر ان نگرانوں نے شہباز شریف کی تعینات کردہ افسر شاہی کو بڑے پیمانے پر اکھاڑ بچھاڑ کرنا پڑے گا۔ ورنہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی نگران وزیر اعلیٰ پر اعتراض کریں گی۔ پنجاب کی موجودہ بیوروکریسی نے شہباز شریف کے ساتھ ورکنگ کی ہے اور یہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ان کی وابستگی ہے۔
یہ افسران گھر بیٹھے پرانے مسلم لیگی دوستوں کو فائدہ دیں گے جیسے ڈی ایم جی افسر راشد محمود لنگڑیال کا مستقبل ہی مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے نیب زدہ افسران کا مکمل انحصار ن لیگ پر ہے، اگر کسی سیاسی آدمی پر کوئی الزام لگتا ہے تو اس کی حمایت میں کئی میدان میںکود پڑتے ہیں لیکن اگر یہ الزام بیوروکریٹ پر لگتا ہے تو اس کو اپنے موقف کے لئے انکوائری یا عدالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت کمشنر راولپنڈی، کمشنر لاہور سمیت کئی اضلاع کے ڈپٹی کمشنر سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے پی ایس او رہ چکے ہیں اور انہیںصرف اس وجہ سے ڈی سی یا کمشنر یا سیکرٹری لگایا گیا تھا کہ انہیں سابق وزیر اعلیٰ کی آشیرباد حاصل تھی ورنہ ان میں سے کئی ایک میرٹ پر ڈی سی لگنے کے اہل نہ تھے۔ نگران حکومت کو الیکشن کمیشن سے اکھاڑپچھاڑ کی اجازت ملنے پر تقرر و تبادلے میرٹ پر کرنا ہونگے کیونکہ فیلڈ میں کئی افسران میرٹ اور اہلیت کی بنا پر بھی آر پی او، ڈی پی او، کمشنر اور ڈی سی تعینات ہیں۔
آر پی او فیصل آباد بلال صدیق کمیانہ، ڈی پی او سرگودھا کیپٹن (ر) سہیل چودھری، کمشنر ملتان بلال احمد بٹ جیسے بیسیوں افسران بھی ہیں جو میرٹ اور اہلیت کی بنا پر تعینات ہوئے ہیں اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ان افسران کو تبدیل کرنے سے پہلے سوچنا ہوگا جبکہ ڈی سی فیصل آباد سلمان غنی ، ڈی سی نارووال علی عنان قمر، ڈی سی گجرات محمد علی رندھاوا ایوان وزیر اعلیٰ میں نوکری کرنے کے کوٹے سے ڈی سی لگے ہیں۔ نگران حکومت کو پروفیشنل اور سیاسی افسران اور ڈی ایم جی ن کے افسران میںتمیز کرنا ہوگی تاکہ ہر کام میرٹ پر ہو سکے اور پیشہ ور افسران کے ساتھ انساف بھی ہو سکے اور سیاسی بنیادوں پر تعینات افسران کو ہٹا کر بتایا جا سکے کہ وہ سفارش سے تعیناتی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور اب میرٹ پر ہٹائے جا رہے ہیں۔
نگران حکومت کے پاس وقت کم اور اختیارات محدود ہیں۔ پنجاب کی بیوروکریسی نے نگران وزیر اعلیٰ کو اپنے گھیرے میں لینا شروع کر دیا ہے اب نگران وزیر اعلیٰ کا اپنا بھی امتحان شروع ہو گیا ہے کہ وہ اس افسر شاہی سے کس طرح نمٹتے ہیں اور کس طرح اپنی غیر جانبداری ثابت کرتے ہیں اور کس طرح فیئر اینڈ فری انتخابات کے لئے انتظامیہ کا چناﺅ کرتے ہیں اور کس طرح تمام سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرتے ہیں کہ انتظامیہ ، نگران حکومت سبھی غیر جابندار ہیں۔