سٹی 42:درجنوں ترک ڈرامے 150 سے زائد ممالک میں 500 ملین سے زیادہ ناظرین دیکھتے ہیں، ارطغرل غازی نے 70 سے زائد ممالک کے ناظرین سے خوب پذیرائی حاصل کی،پاکستان میں یہ ڈرامہ شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے،پاکستانی لوگ ارطغرل غازی کی کاسٹ کو دیکھنے کیلئے بے تاب ہیں،یقیناً یہ ڈرامہ بہت اچھا ہے،اس کی پروڈکشن بھی اعلیٰ ہے لیکن اس میں کچھ غلطیاں ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے خطے اور مٹی میں ایک عجیب طرح کی ہوا ہے کہ لوگ ہر معاملے میں شدت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور اسی وجہ سے جب کہ ہم پہ دہشتگردی اور نفرت انگیزی کے پھیلاو کا الزام لگ رہا تھا تبھی ہم دنیا میں سب سے زیادہ چیرٹی کرنے والے قوم بھی تھے اور دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بھی چلا رہے تھے یعنی ہم سے منسوب اچھائی،برائی ،پسندیا نا پسند اس میں شدت کا عنصر واضح ہے ۔اسی طرح کا تعلق اب پاکستانی قوم خصوصا نوجوان طبقے سے ترک ڈرامے ارتغل کا ہے جسے بے تحاشا سراہا جا رہا ہے اور اس سے وابستہ چہرے بے انتہا محبتیں سمیٹ رہے ہیں وہیں اس پہ شدید تنقید کرنے والا بہت چھوٹا مگر ایک طبقہ موجود ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کی اس ڈرامے کے مثبت پہلوئوں کے ساتھ ساتھ کچھ بے فائدہ و بے مقصدعوامل بھی ہیں۔
بیشک ’ارطغرل‘ نشے کی طرح ہے۔ کہانی بھی شیطان کی آنت ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ایک قسط دیکھنے کے بعد آپ کے اندر خود بخود جستجو بڑھ جاتی ہے کہ چلیں اگلی قسط بھی دیکھ لیتے ہیں تاکہ پتہ تو چلے آخرہوا کیا پھر۔ اور اس ’چلیں‘ کی وجہ سے بس ارطغرل کو چھوڑنے کا دل کسی بھی لمحے نہیں چاہتا۔ ایک کے بعد ایک ایسے ڈرامائی موڑ آتے ہیں کہ آپ نہ چاہتے ہوئے مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس سلسلے کو جاری رکھنے پر۔ لیکن کچھ پہلوئو ں پر ہدایت کار متین گونے نے کچھ زیادہ ہی ڈرامائی رنگ دیا ہے۔
ارطغرل اور اِن کے جانباز جنگجوئو ں کے تیروں کے نشانے ایسے غضب کے ہوتے ہیں کہ دشمن پلک جھپکتے میں پکے ہوئے آم کی طرح زمین پر ٹپک پڑتے ہیں۔ البتہ مخالفوں کی جانب سے لگائے گئے ارطغرل صاحب کے ساتھیوں پر چاقواور تلوار کے وار اس قدر کار گر ثابت نہیں ہوتے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اکلوتے معالج عارف صاحب کی معمولی سی مرہم پٹی کے بعد زخم بھی بھر جاتے ہیں۔ارطغرل کے جاسوس تو پکڑے جاتے ہیں۔ لیکن حیران کُن طور پر دشمنوں کے بھیجے ہوئے جاسوس، قبیلے میں ہی نہیں مرکزی خیموں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔گزشتہ قسطوں کے نام اور اداکار اگلی قسطوں میں تبدیل کردیے جاتے ہیں۔
یہی نہیں جاسوس، بڑے مزے سے مخبریاں کرنے کے لیے محل یا اپنے آقائوں سے میل میلاپ کرتے رہتے ہیں لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس ڈرامے کا اصل مقصد تاریخ کو عوام تک پہنچانا تھا جبکہ اس میں تاریخ کی مسخ شدہ شکل پیش کی گئی ہے اور تاریخ سے وابستہ حقائق پہنچانے میں ناکام رہا ہے اور اس کہانی میں موجود کرداروں کے ناموں کے علاوہ آدھے سے زیادہ حصہ صرف ایک فرضی قصے سے زیادہ کچھ نہیں۔