ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسرائیل میں عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی نیتن یاہو حکومت کی نئی کوشش کا مسودہ سامنے آ گیا

City42, Times of Israel, Israeli Politics, Independence of Judiciary in Israel, City42 , Independent Judges, Politicization of Judges ,Justice Minister Yariv Levin and Foreign Minister Gideon Sa’ar
کیپشن: اسرائیل کی آزاد عدلیہ کو زیر دام لا کر سیاست زدہ کرنے کا نیا اصلاحاتی پیکیج پیش کرنے والے وزیر انصاف یاریو لیون 6 نومبر 2024 کو کنیسٹ پلینم میں وزیر خارجہ گیڈون ساعر سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: یوناٹن سنڈیل/فلش90) جمعرات کو دونوں وزیروں نے نیا مسودہ قانون پیش کرتے ہوئے اسے ڈیڑھ سال پہلے شدید مخالفت کے سبب روک دیئے گئے مسودہ قانون سے مختلف قرار دیا لیکن اس کا مقصد تب بھی عدلیہ کی آزادی کو  محدود کرنا ہی ہے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

وسیم عظمت: اسرائیل میں نیتن یاہو کی اتحادی حکومت نے خود مختار  عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی نئی کوشش کرتے ہوئےپارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو عدلیہ کی جانب سے مسترد کئے جانے کا اختیار محدود کرنے اور ججوں کے تقرر میں بار کی بجائے حکومت کا کردار بڑھانے کی شقوں کے ساتھ آئینی ترمیم کا نیا  مسودہ تیار کر کے  پبلک کر دیا۔ اسرائیل کی حکومت کو 16 جنوری تک سپریم کورٹ کے صدر کے تقرر کی ڈیڈ لائن درپیش ہے جس کے لئے حکومت موجودہ جوڈیشل سیلیکشن کمیٹی کی کمپوزیشن کو بدلنے کے درپے ہے۔

دو حکومتی وزراجمعرات کے روز جس مسودہ قانون کو سامنے لائے ہیں اس نئے مسودہ میں ڈیڑھ سال پہلے شدید احتجاج کے سبب روکے گئے ترمیم کے مسودہ کی نسبت کسی حد تک پسپائی اختیار کی گئی ہے تاہم بار ایسوسی ایشن کا ججوں کے تقرر میں کردار ختم کر کے  جوڈیشل سیلیکشن کمیٹی میں بار کے دو نامزد نمائندوں کی جگہ حکومت اور اپوزیشن کے ایک ایک نمائندہ کو جگہ دینے اور ججوں کے تقرر کے عمل میں جوڈیشل سیلیکشن کمیٹی کی سادہ اکثریت میں کم از کم ایک حکومتی اور ایک اپوزیشن نمائندہ کے ووٹ کو لازمی قرار دینے کی شقیں ژامل کی گئی ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے اس نئے مجوزہ مسودہِ قانون کی مخالفت  بھی سامنے آ گئی ہے تاہم بعض لیڈر ابھی اس مجوزہ مسودہ کا مطالعہ کرنے کی غرض  سے خاموش ہیں۔

اسرائیل کے اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق وزیر انصاف یاریو لیون اور وزیر خارجہ گیدون ساعر نے جمعرات کو اسرائیل کے عدالتی نظام میں تبدیلیوں کے ایک دور رس پیکج کی نقاب کشائی کی جس سے عدالتی تقرریوں میں سیاستدانوں کا عمل دخل طاقت بڑھے گا اور ہائی کورٹ کی قانون سازی کو ختم کرنے کی صلاحیت کو روکا جائے گا، لیکن کچھ ایسے مجوزہ  اقدامات  کو روک دیا جائے گا  جنہوں نے 2023 میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں کو جنم دیا تھا۔

 اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی شدید مخالفت اور پبلک کے احتجاجی مظاہروں کے سبب نیتن یاہو کی حکومت کوشش کے باوجود اپنے مسودہ قانون کو قانون نہیں بنوا سکی تھی اور ڈیڑھ سال سے یہ معرض التوا میں تھا۔

نیا مسودہ قانون سامنے آنے کے بعد اسرائیلی حزب اختلاف کے  بیشتررہنماؤں نے اس تجویز پر فوری طور پر فوری تبصرہ کرنے سے گریز کیا، جو  وزیر انصاف یاریو لیون کی عدلیہ کو تبدیل کرنے کی سابقہ ​​کوششوں کا ایک نرم ورژن معلوم ہوتا ہے، جب کہ بعض نے عدلیہ کو "سیاست زدہ" (پولیٹیسائز) کرنے کا پیکج  قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت میں سرگرمی دکھائی ہے۔

نیتن یاہو حکومت کے گزشتہ آئیڈیا  کے برعکس، جمعرات کو منظر عام پر آنے والے "اصلاحات" کے مسودہ پر عملدرآمد  اہم جوڈیشل سلیکشن کمیٹی میں عدالتی تقرریوں کو روکنے کے لیے اپوزیشن کی طاقت میں بظاہر اضافہ ہوگا۔ تاہم، یہ خود جوڈیشل سیلیکشن کمیٹی  پر قانون کے پروفیشنلز  (بار ایسوسی ایشن) کے اثر و رسوخ کو کم کرکے مزید سیاسی بننے کا راستہ کھولے گا۔

جمعرات کو نیا مسودہ قانون سامنے لانے  والے دونوں وزراء نے بتایا کہ "اصلاحاتی پیکج " ان دونوں نے وضع کیا، سابق وزیر یزہر شائی کے ساتھ، جو بینی گینٹز کی اب معدوم ہو چکی "اسرائیل ریزیلیئنس پارٹی" کے رکن تھے، اور بریگیڈیئر۔ جنرل (Res) Dedi Simchi، نے بھی اس کی تیاری میں حصہ ڈالا۔

وزرا نے دعویٰ کیا کہ انہیں یہ پیکیج تیار کرنے میں ڈیڑھ سال لگا تاہم  اس حقیقت کو سب جانتے ہیں کہ نیتن یاہو حکومت ڈیڑھ سال سے اپنے گزشتہ آئینی ترامیم کے پیکیج کو قانون بنانے میں ناکام رہنے کے بعد حال ہی میں  اپنے آئیڈیا میں قدرے پسپائی اختیار کر کے نسبتاً موڈریٹ اور اپوزیشن کے بعض لیڈروں کیلئے ب؟ظاہر پرکشش تجاویز سامنے لانے کے لئے حال ہی میں متحرک ہوئی ہے۔ 

جوڈیشل سیلیکشن کمیٹی کی کمپوزیشن میں سٹریٹیجک تبدیلی

نیتن یاہو حکومت کے دو وزرا کے مجوزہ عدالتی اصلاحات  کے مسودہ کے مطابق جوڈیشل سلیکشن کمیٹی کے ارکان کی تعداد پہلے کی طرح 9 رہے گی۔ کمیٹی میں اتحادی حکومت کے نامزد  ارکان کی تعداد تین، اپوزیشن کے نمائندوں کی تعداد ایک اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بھی تین رہے گی۔

تاہم، اسرائیل بار ایسوسی ایشن کے دو نمائندوں کی جگہ "قانونی چارہ جوئی (litigation) کا تجربہ رکھنے والے وکلاء "کو ان کی جگہ کمیٹی کا رکن بنایا جائے گا۔ ایک وکیل کا انتخاب حکومت اور ایک کا اپوزیشن کرے گی۔

نچلی عدالتوں میں عدالتی تقرریاں کمیٹی میں پانچ ووٹوں کی سادہ اکثریت سے کی جائیں گی، اور اس اکثریت میں حکومت اور اپوزیشن کا ایک رکن اور سپریم کورٹ کا جج شامل ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ میں تقرریاں بھی پانچ کی اکثریت سے کی جائیں گی، اور اس اکثریت میں اتحاد کا ایک رکن اور اپوزیشن کا ایک رکن لازماً  شامل ہونا چاہیے۔

اس انتظام کا مطلب ہے، لیون اور ساعر نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کے نمائندوں کو عدالت میں تقرریوں پر ویٹو پاور حاصل نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی، دونوں وزراء نے نشاندہی کی، سپریم کورٹ کے جج کا تقرر محض اتحاد کے نمائندوں یا عدلیہ اور اپوزیشن کے نمائندوں کے ذریعے بھی نہیں کیا جا سکتا۔

قانون سازی پر نظر رکھنے کا عدلیہ کا اختیار محدود کرنے کی کوشش

اس تجویز کے تحت، ٹائم آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق،  اسرائیل کے نیم آئینی بنیادی قوانین کو بھی زیادہ سخت قانون سازی کے عمل کے ذریعے زیادہ وزن دیا جائے گا، لیکن وہ ہائی کورٹ آف جسٹس کی طرف سے عدالتی نظرثانی کے تابع نہیں ہوں گے، جس سے عدالت کے  قانون سازی کی نگرانی کے کچھ اختیارات بھی ضائع ہو جائیں گے

نظر ثانی کی تازہ تجویزوزیر انصاف  لیون کی، عدلیہ کی طاقت کو محدود کرنے کی تازہ ترین کوشش کی نشاندہی کرتی ہے، وہی  مہم جو انہوں نے 2023 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک ایجنڈے کے ساتھ شروع کی تھی جس نے تقریباً مکمل طور پر عدالتی نظام کو حکومت کے تابع کر دینا تھا۔ بڑے پیمانے پر عوامی ردعمل اور احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے یہ کوشش آخری لمحات میں روک دی گئی۔ 7 اکتوبر 2023 کی تباہی کے بعد اس کوشش کو روک دیا گیا تھا، لیکن لیون نے حالیہ مہینوں میں اسے بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔

نئے مجوزہ اصلاحاتی پیکج کے تحت، "بنیادی قوانین" صرف "ریاست کے یہودی اور جمہوری تشخص"، انسانی حقوق اور حکومت کے پہلوؤں کے اہم معاملات سے نمٹنے کے قابل ہوں گے۔

بنیادی قوانین کی قانون سازی باقاعدہ قوانین سے مختلف ہوگی جس سے ان کی آئینی حیثیت میں اضافہ ہوگا۔(اس وقت ان قوانین کو کوئی خصوصی حیثیت حاصل نہیں اور عدالت انہیں ری ویو کر سکتی ہے)۔  وزراء کا کہنا ہے کہ بنیادی قوانین کو "اچانک" یا  حکومت  کی ضروریات کی وجہ سے تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم، وہ یہ نہیں بتاتے کہ بنیادی قوانین کی منظوری کے لیے کیا عمل ہوگا۔

اپوزیشن لیڈر اور ممتاز سیاستدانوں کا ابتدائی ردعمل

اسرائیل کے میڈیا مین جمعرات کو سامنے آنے والے ردعمل کے مطابق اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ اور نیشنل یونٹی پارٹی کے سربراہ بینی گینتز، دونوں نے اس تجویز کا مکمل جائزہ لینے سے پہلے فوری طور پر جواب دینے سے انکار کر دیا، اور اصرار کیا کہ اس  اقدامات کے نئے پیکیج سے قطع نظر سپریم کورٹ کے نئے صدر کا انتخاب کیا جائے۔

دوسروں نے عدالتی تقرریوں پر سیاسی کنٹرول بڑھانے کی مسلسل کوششوں پر سخت تنقید کی۔

بار اور قانون دانوں کا ردعمل

 اسرائیل بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کی تقرریوں کی "مکمل سیاست زدہ"  کرنے کے خلاف احتجاج کیا، جب کہ آئینی ماہرین نے "سیاسی آقاؤں"  کی طرف سے عدالتی آزادی کے خاتمے پر تشویش کا اظہار کیا۔

لیون نے سپریم کورٹ کے نئے صدر کی تقرری کی اجازت دینے سے اب تک انکار کیا ہے کیونکہ وہ اس تقرر پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے طور پر اپنی حیثیت میں بیٹھ کر ایک ڈیڈ لائن دی ہے کہ 16 جنوری تک سپریم کورٹ کا نیا صدر بہرحال مقرر ہو۔


نئی تجاویز کا کلیدی جزو 'جوڈیشل سلیکشن کمیٹی' میں حکومت، اپوزیشن اور عدلیہ کی نمائندگی کو  تو برقرار رکھے گا، لیکن یہ ہے کہ اتحاد اور حزب اختلاف ایک ایک وکیل کو پینل میں خدمات انجام دینے کے لیے منتخب کریں، بجائے اس کے کہ اسرائیل بار ایسوسی ایشن اپنے دو ک نامزد نمائندوں کو کمیٹی میں بھیجے۔

تنقیدی طور پر، نئے مسودہ کے تحت سپریم کورٹ میں تقرریاں کمیٹی کے رکن تین ججوں میں سے کسی کے ووٹ کے بغیر کی جا سکتی ہیں، جبکہ موجودہ نظام عدلیہ اور حکومتی نمائندوں دونوں کو ان تقرریوں پر ویٹو کی ضمانت دیتا ہے۔

نئے مسودہ کے قانون بننے کے بعد نچلی عدالتوں میں تقرریوں کے لیے اتحادی حکومت، اپوزیشن اور عدلیہ کے کم از کم ایک رکن کی منظوری درکار ہوگی، جب کہ فی الحال وہ اتحاد یا حزب اختلاف کے ووٹوں کے بغیر کی جا سکتی ہیں۔

Caption  یکم اکتوبر 2024 کو یروشلم میں سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ کے قائم مقام صدر اوزی ووگلمین کے ریٹائر ہونے والی الوداعی تقریب میں سپریم کورٹ کے جج۔ تصویر بذریعہ اورین بین ہاکون/POOL

ماضی کے مخالف نئے مسودہ  کے خالق

وزیر خارجہ گیدون ساعر، جنہوں نے پچھلی حکومت میں وزیر انصاف کے طور پر خدمات انجام دیں، وزیر انصاف یاریو  لیون کی اصل عدالتی اصلاحات کی تجاویز کے ایک کھلے اور پرزور ناقد تھے جس میں عدلیہ پر ایگزیکٹیو برانچ کو بہت زیادہ اختیارات دینے کا پوٹینشل واضح تھا۔ ، جبکہ وہ اب بھی نظام میں اصلاحات کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے جمعرات کو اصرار کیا کہ انہوں نے لیون کے ساتھ جو "نیا پیکج "وضع کیا ہے اس نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ حکومتی اتحاد کو عدالتی تقرریوں کے لیے اپوزیشن سے معاہدے کی ضرورت ہوگی۔

اپوزیشن کو تھوڑی طاقت دینے کے عوض حکومت کیلئے بھی تھوڑی مزید طاقت اور 'بار' کے کردار کا خاتمہ

نیتن یاہو حکومت کی طرف سے سامنے لئے گئے نئے عدالتی اصلاحات کے پیکیج کا خلاصہ بہرحال یہ ہے کہ حکومت کو بار کے دو نمائندوں سے محروم کر کے اپنا ایک نمائندہ بڑھانے کا موقع ملے گا اور اپوزیشن کو اس پیکیج کو قانون سازی کے مرحلہ سے گزارنے میں معاونت کے عوض جوڈیشل سیلیکشن کمیٹی میں ایک مزید  نمائندہ  دینے کا اختیار تو ملے گا لیکن پروفیشنل عدلیہ کو پولیٹیسائز کرنے کا الزام اسے برابر شئیر کرنا پڑے گا۔

سپریم کورٹ کے ججوں کی کمیٹی میں مؤثریت کا خاتمہ

نئے مسودہ قانون میں سپریم کورٹ کے ججوں کا تقرر کرنے کے لئے جوڈیشل سیلیکشن کمیٹی کے نو ارکان مین سے سات کے ووٹ کی بجائے صرف سادہ اکثریت کے ووٹ کو کافی قرار دیا گیا ہے۔

مجوزہ مسودہ کے مطابق سپریم کورٹ میں تقرریاں بھی پانچ کی اکثریت سے کی جائیں گی اور اس میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کا ایک رکن شامل ہونا چاہیے۔ اس اقدام سے عدلیہ کا اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت میں تقرریوں پر بہت زیادہ طاقت اور اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا کیونکہ فی الحال سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے نو میں سے سات ووٹوں کی اکثریت درکار ہے، عدلیہ کے پاس کمیٹی میں تین نشستیں ہیں اور عدلیہ کے تین ارکان کا اتفاق رائے کسی بھی تقرر کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ دراصل گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران ایسا ہی ہوا ہے جس کے سبب سپریم کورٹ میں ججوں کے تقرر رکے ہوئے ہیں۔اس صورتحال میں عدلیہ کی ہیجمنی کو توڑنے کے لئے نئے مسودہ میں یہ تجویز ہے کہ :

ایسی صورت حال میں جب سپریم کورٹ میں دو  پوسٹیں ایک سال سے زیادہ عرصے تک کھلی رہیں اور اتحادی اور اپوزیشن تقرریوں کے لیے کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے، حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے دونوں ہر ایک پوسٹ کے لیے تین امیدواروں کی فہرست تجویز کریں گے۔ ان مین سے  دوسرے فریق کو ، تینوں ججوں کے ساتھ مل کر، ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔

Caption  آئین، قانون اور انصاف کمیٹی کے سربراہ،  کنیست کے رکن سمشا روتھمین ،  25 جون 2023 کو یروشلم میں Knesset میں طے شدہ عدالتی اصلاحات پر کمیٹی کے اجلاس کی قیادت کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: Yonatan Sindel/Flash90)

عدالتی ری ویو سے بالاتر"بنیادی قوانین" کا تصور؛ ناقابلِ فہم گرے ایریا

اسرائیل میں قانون سازی کو عدالتی ریوی کا سامنا رہتا ہے جو کنیست میں اکثریت  حاصل ہو جانے کے باوجود حکومت کو بہت سے قوانین کو بلڈوز کرنے سے روکتا ہے، اس صورتحال سے مکمل چھٹکارا پانے کی کوشش مین احتجاج کے سبب ناکام ہونے کے بعد نیتن یاہو حکومت "بنیادی قوانین" کا نیا تصور لائی ہے جنہیں وہ چاہتی ہے کہ عدالتی ری ویو سے بالاتر قرار دے دیا جائے تاہم اپنے مسودہ قانون مین وزرا یہ واضح نہیں کر پائے کہ "بنیادی قانون" کون کون سے ہوں گے، ان میں اور "ریگولر قوانین" میں کیا بنیادی فرق ہو گا۔ اگر انہیں زیادہ "سخت معیار" پر قانون بنایا جائے گا تو ایسا قانون بنانے کے لئے پارلیمنٹ میں کتنے ووٹ درکار ہوں گے۔ یہ تصور ہنوز ایک گرے ایریا ہے جس میں جائے بغیر  حکومت نے اپنا نیا مسودہ تو پبلک کر دیا ہے لیکن اس تصور پر اتفاق رائے حاصل کرنا شاید عدلیہ کی ججوں کے تقرر میں غیر مؤثریت اور بار کو ججوں کے تقرر کے عمل میں فارغ کر دینے کی تجاویز سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔

"عام قوانین" پر نظر ثانی کا  عدالتی اختیار بھی محدود

نئے مسودہ قانون کے قانون بننے سے "باقاعدہ قانون""  قرار دی گئی کیٹیگری کی  قانون سازی پر  بھی عدالتی جائزہ  کم کر دیا جائے گا، مجوزہ ترمیم کے تحت عدالت کے تمام حاضر سروس اراکین کی اکثریت کے ساتھ ہی کنیست کی قانون سازی کو ختم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

اس وقت اس طرح کے فیصلے عام طور پر 15 رکنی عدالت کے کم از کم نو ارکان کو شامل کرتے ہیں۔

عدلیہ کی آزادی کے سلاٹر کی "اعتدال پسند" کوشش، اہم کوالٹی کنٹرول جزو کا خاتمہ

ائمز آف اسرائیل نے  اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینئر فیلو  پروفیسر یوول شانی کو یہ کہتے ہوئے رپورٹ کیا کہ نئی تجویز لیون کے سابقہ ​​قانون ساز اقدام کے مقابلے میں "زیادہ اعتدال پسند" ہے جس سے بنیادی طور پر حکومت اور اتحادی جماعتوں  کو عدلیہ پر مکمل کنٹرول مل جاتا۔

اس کے باوجود پروفیسر یوول شانی نے جوڈیشل سلیکشن کمیٹی میں تبدیلیوں سمیت تجاویز کے کئی پہلوؤں پر تشویش کا اظہار کیا اور رائے ظاہر کی کہ  عدالت میں تقرری کے عمل سے سپریم کورٹ کے ججوں کی شمولیت کو ہٹانا، اور Knesset کے منتخب کردہ دو وکیلوں کو جوڈیشل سلیکشن کمیٹی میں  رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت میں ججوں کے انتخاب میں کسی آزاد قانونی پیشہ ور افراد کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے، 

انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اب اپوزیشن کے نمائندے کو سپریم کورٹ کی تقرری پر اتفاق کرنے کی ضرورت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تجویز نے اصل (گزشتہ) مسودہ  ترمیم کے ساتھ کچھ مسائل سے گریز کیا ہے۔

لیکن انہوں نے کہا کہ اس نے کمیٹی میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کی شرکت کو "تقریباً بے معنی" بنا دیا اور موجودہ نظام کے ایک اہم کوالٹی کنٹرول جزو کو ہٹا دیا جہاں آزاد قانونی ماہرین کو اسرائیل کی اعلیٰ عدالت میں تقرریوں پر ویٹو حاصل ہے۔

شانی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں تقرریوں پر سیاست دانوں کا کنٹرول ان تقرریوں کو سیاسی بنانے کا باعث بھی بن سکتا ہے، اور امریکی سپریم کورٹ میں دیکھی جانے والی انتہائی سیاسی صورتحال کا باعث بن سکتا ہے۔

تقرریوں کی سیاست سے نچلی عدالتوں میں بھی تقرریوں میں سیاست میں اضافہ ہو جائے گا،  کیوں کہ اس مسودہ کے تحت زیریں ججوں کی تقرری صرف سیاستدانوں اور وکیلوں کے ووٹوں سے کی جا سکتی ہے، بغیر کسی آزاد قانونی پیشہ ور کے ان پٹ کے جیسا کہ اس وقت ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے عدالتی آزادی سلب ہو سکتی ہے۔

شانی نے مزید کہا کہ بنیادی قوانین کی قانون سازی اور عدالتی نظرثانی کو منظم کرنے والی تجاویز کے بارے میں مزید تفصیلات درکار ہیں، یہ بتاتے ہوئے کہ اگر بنیادی قوانین کو منظور کرنے کے لیے شرائط بہت سست ہیں تو ان پر عدالتی نظرثانی سے انکار کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔