ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

فوجی دباؤ نے یرغمالیوں کو مارا؛  اسرائیلی مسلمان یرغمالی کی وفات پر تل ابیب میں تعزیتی اجتماع

Gaza war, Youssef Ziyadne mourning, city42, Bring Them Home Now
کیپشن: 9 جنوری 2025 کو تل ابیب کے یرغمالیوں کے اسکوائر پر سوگوار یرغمالی خاندان کے افراد خطاب کر رہے ہیں۔ (یرغمالیوں کا فورم)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  تل ابیب میں غزہ میں حماس کی قید میں مرنے والے عرب مسلم اسرائیلی یوسف زیادنے کے سوگ میں ہونے والے اجتماع میں شرکا نے جنگ کے دباؤ کو یرغمالیوں کی اموات کی ایک وجہ قرار دیا۔

حماس کے یرغمالی یوسف زیادنے کے خٓندان کے افراد نے بھی زیادنے کی غزہ کی سنگ میں وفات اور ان کے نوجوان بیٹے کی  ممکنہ وفات کا ماتم ک کرنے کے لیے جمع ہونے والوں کے ساتھ شریک ہوئے۔ اس تعزیتی اجتماع میں واضح طور سے اس خیال کا اظہار کیا گیا کہ فوجی دباؤ یرغمالیوں کو قتل کر رہا ہے۔
غزہ کی اسیری میں مارے گئے یرغمالیوں کے اہل خانہ ایک دوسرے یرغمالی متوفی یوسف زیادنے، جس کی لاش آئی ڈی ایف کو غزہ میں دو روز پہلے ملی تھی، اس کی وفات  پر سوگ منانے کے لیے تل ابیب کے ہوسٹجز اسکوائر میں ایک ساتھ کھڑے ہوئے، اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یرغمالیوں کے معاہدے پر دستخط کرے جو  اب تک مذاکرات کی میز پر طے نہیں ہو سکا۔

ہرش گولڈبرگ پولن کی والدہ ریچل گولڈ برگ پولن نے اس اجتماع میں کہا، "ہم نقصان اور سوگ کے ایک گروہپ کے رکن ہیں، جنہیں اگست کے آخر میں ان کے اغوا کاروں نے پانچ دیگر یرغمالیوں کے ساتھ پھانسی دے دی تھی۔" "ہم نہیں چاہتے کہ مزید لوگ ہماری اذیت اور درد کی کمیونٹی میں شامل ہوں اور ابھی تک افسوسناک بات یہ ہے کہ کل ہی زیادنے فیملی بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئی۔ ہم تمام عالمی رہنماؤں سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ایک معاہدہ کریں اور باقی تمام 99 یرغمالیوں کو گھر واپس لائیں۔

گولڈ برگ پولن نے اپنے ریمارکس کو اسرائیل کے رہنماؤں سے بائبل میں، پیدائش کی کتاب میں، آدم سے پہلا سوال پوچھ کر مکمل کیا: "تم کہاں ہو؟" گولڈبرگ پولن نے مائکروفون میں  بلند آواز کے ساتھ ان الفاظ سے گفتگو تمام کی، ’’ابھی انہیں گھر لے آؤ۔‘‘
اس نعرے کی بازگشت دوسرے سوگوار یرغمال خاندانوں کی طرف سے سنائی دیتی رہی۔ ہزاروں افراد کا مجمع یہ الفاظ دہرات رہا،"Bring them home now"

"یہ خاندان، بہن بھائی; مکمل خاندان تباہ ہو چکے ہیں،" الہانان ڈینینو  نے اپنی تقریر میں کہا، ان کا بیٹا اوری ڈینینو  بھی ہرش گولڈ برگ پولن کے ساتھ مارے جانے والے پانچ یرغمالیوں میں سے ایک تھا۔ اپنے بیٹے اوری کی تصویر  کو دکھانے کے لیے اپنی جیکٹ کا لیپل کھولتے ہوئے، ڈینینو نے حکومتی قیادت سے کہا، "آپ کس کا انتظار کر رہے ہیں؟ براہ کرم، وزیر اعظم کی میز پر بیٹھے ہوئے ہیں؛ اٹھو! تم نے انہیں لے جانےدیا، اب انہیں واپس لاؤ۔

Caption جون پولن اور ریچل گولڈ برگ پولن 9 جنوری 2025 کو ہوسٹجز اسکوائر میں خطاب کر رہے ہیں۔ (فوٹوٹو: یرغمالیوں کا فورم)


غزہ کی سرنگ میں گولڈ برگ پولن کے ساتھ مارے جانے والے یرغمالیوں میں سے ایک اور کارمل گیٹ کے بھائی ایلون گیٹ نے سگوار ہجوم کو 7 اکتوبر2023 کو اپنے تجربات کے بارے میں بتایا، جب ان کی ماں، کنیریٹ گیٹ، ان کے کبٹز بیری کے گھر میں ماری گئی تھی، جبکہ وہ، ان کی بیوی یارڈن رومن گیٹ اور ان کی تین سالہ بیٹی کو کارمل کے ساتھ یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

ایلون اور گیفن فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، بالآخر اگلے دن تک انہوں نےاپنی حفاظت کا راستہ بنا لیا تھا۔ رومن گیٹ کو نومبر 2023 کی جنگ بندی میں رہا کیا گیا تھا، لیکن کارمل نے اسے کبھی گھر نہیں بلایا کیونکہ وہاں اب تلخ یادیں ہیں۔

ایلون گیٹ نے کہا، "آپ تصور نہیں کر سکتے کہ یہ کیسا ہے؛ کسی تین سالہ بچے کو بتانا کہ اس کی خالہ جو آنے والی تھی، وہ نہیں رہی ہے، اور وہ ماری گئی۔" 

"ہم یہاں ایک سال سے زیادہ عرصے سے کھڑے ہیں،" گیٹ نے کہا، "جب سے گیفن کی ماں کو رہا کیا گیا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ کسی کو زندہ واپس لانا کیا معنی رکھتا ہے۔ میں نے اپنی بہن کارمل کو کھو دیا ہے اور میں اسے ساری زندگی اپنے ساتھ رکھوں گا۔

Caption نو  جنوری 2025 کو یرغمال بنائے گئے اوری ڈیینو کے والد الہانان ڈینو یرغمالیوں کے اسکوائر پر خطاب کر رہے ہیں۔ (فوٹو: یرغمالیوں کا فورم)


کارمٹ پالٹی کٹزیر اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے پچھلے سال اپنے پورے خاندان کو کھو دیا۔ ان کے والد، رامی کاتزیر کو 7 اکتوبر کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب ان کی بوڑھی والدہ اور بھائی، حنا کتزیر اور ایلاد کتزیر کو یرغمال بنا لیا گیا۔ ایلاد کتزیر کو جنوری میں اسیری کے دوران قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش کو آئی ڈی ایف نے اپریل میں برآمد کیا تھا اور تدفین کے لیے گھر لایا گیا تھا۔ حنا کتزیر کو نومبر 2023 میں گھر واپس بھیج  دیا گیا تھا لیکن دسمبر میں ان کی حماس کی قید سے  پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔

"ہم اپنا ( حماس کی قید میں مارے جانے والوں کے لواحقین کا گروپ) کلب بند کرنا چاہتے ہیں،" وہ کہتی ہیں۔ "ہمارا کلب ہر خاندان کا ڈراؤنا خواب ہے، جہاں کوئی بھی شامل نہیں ہونا چاہتا ہے۔ ہم کھوئے ہوئے مواقع کا چہرہ ہیں۔"

"ہم یہاں اس لیے ہیں کیونکہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی تھی،" پیلٹی کتزیر کہتی ہیں۔ "ہمارے پاس گھر لانے یا بچانے والا کوئی نہیں ہے لیکن ہم یہاں ہیں تاکہ کوئی دوسرا خاندان اس سانحہ سے نہ گزرے۔"

"میں اپنی اور اپنے خاندان کی ہڈیوں  کے اندر تک یہ بات جانتا ہوں کہ صرف ایک معاہدہ ہی باقی مغویوں کو واپس لے آئے گا… حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ سب کی واپسی کے لیے فوری طور پر ایک معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے اس سے پہلے کہ مزید مغویوں کے لیے بہت دیر ہو جائے، " کتزیر نے مزید کہا۔

ایٹائی کی بہن میرو سویرسکی جو اسیری میں ماری گئی تھیں اور جن کی لاش اسرائیل کو واپس کر دی گئی تھی، کہتی ہیں، "بہت سے زیادہ یرغمالی، جو زندہ واپس آ سکتے تھے، فوجی دباؤ کے نتیجے میں قتل اور مارے گئے ہیں۔"

"یہ اب روز روشن کی طرح واضح ہے: فوجی دباؤ یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ فوجی دباؤ نے انہیں مارا اور یہ مارنے کا سلسلہ  ہنوز جاری ہے۔ اور فوجی دباؤ  ہمارے فوجیوں کی جانوں کو  بھی خطرے میں ڈالتا ہے اور نقصان پہنچاتا ہے۔ وہ پالیسی جو فوجی دباؤ کے تسلسل کو ترجیح دیتی ہے اسے زندگی بچانے والی پالیسی سے بدلنا چاہیے جو تمام یرغمالیوں کی واپسی کے لیے پرعزم ہے،‘‘میرو سویرسکی نے مزید کہا۔