(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر اہم سوالات اٹھادیئے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواسر پر سماعت کی۔وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے موقف اختیار کیا کہ عمران خان چاہتےتو نیب ترامیم کو اسمبلی میں شکست دے سکتے تھے، پی ٹی آئی کے تمام ارکان مشترکہ اجلاس میں آتے تو اکثریت میں ہوتے۔
وفاقی حکومت کے وکیل کی دلیل پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس نکتے پر عمران خان سے جواب لیں گے۔دوران سماعت جسٹس منصورعلی شاہ نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر اہم سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کے وکیل اسلامی دفعات اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ذکر کرتے رہے۔
فاضل جج نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم کون سے بنیادی حقوق سے متصادم ہے اس کی نشاندہی نہیں کی گئی، عمران خان اور ان کی پارٹی نے نیب ترمیمی بل پر ووٹنگ سےاجتناب کیا، کیا ووٹنگ سے اجتناب کرنے والے کا عدالت میں حق دعویٰ بنتا ہے؟ کیا کوئی رکن اسمبلی پارلیمان کو خالی چھوڑ سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمان میں کرنےوالا کام عدالتوں میں لانا پارلیمنٹ کوکمزورکرنانہیں ہے؟ استعفیٰ منظور نہ ہونے کا مطلب ہے کہ اسمبلی رکنیت برقرار ہے، رکن اسمبلی حلقے کے عوام کا نمائندہ اور ان کے اعتماد کا امین ہوتا ہے، کیا عوامی اعتماد کے امین کا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست ہے؟
فاضل جج نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے وقت بائیکاٹ کرنا پھر عدالت آ جانا پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کرنا نہیں؟ کیسے تعین ہوگا کہ نیب ترامیم عوامی مفاد اوراہمیت کا کیس ہے؟عوامی مفاد کا تعین کیا عدالت میں بیٹھے 3 ججز کو کرنا ہے؟ کیا عوام نیب ترامیم کےخلاف چیخ و پکار کر رہی ہے؟ ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر لیڈر اپنے اقدامات کو درست کہنے کیلئے آئین کا سہارا لیتا ہے، کیا صرف اس بنیاد پرعوامی مفاد کا مقدمہ نہ سنیں کہ درخواست گزار کا کنڈکٹ درست نہیں تھا؟