ظہیر کاہلوں: دوسال کا بچہ 3 دن سے اندھیرے میں ہے۔ شائد زخمی بھی ہے۔ تین دن سے بھوکا پیاسا ہے، جسے ماں ہر دو گھنٹے بعد کچھ کھلاتی تھی پلاتی تھی، بیٹا دودھ پی لو، جوس پی لو، بریڈ کھا لو، بیٹا انڈہ کھا لو۔ وہ کہتا نہیں چاکلیٹ کھاوں گا، بسکٹ کھاوں گا، ماں اس کی من پسند کھانے بنانے میں جتی رہتی، جو باپ کی گود سے نہیں اترتا تھا۔ بابا گھوڑا بنو، اوپر بیٹھوں گا۔ بابا باہر لے کے چلو۔ جو زرا سا اندھیرا دیکھ کے بابا کی گود میں چھپ جاتا تھا، ماں ہر پانچ منٹ بعد آواز دیتی تھی کہ کدھرہو کیا کر رہے ہو، پیمپر کو بار بار چیک کرتی تھی کہ کہیں گیلا تو نہیں، اب وہ کئی دفعہ پیشاب اور پوٹی کرچکا جو اس کے جسم کے ساتھ ہی جم چکے۔
ماں کو آوازیں دے دے کر تھک گیا رو رو کر کئی دفعہ سو گیا ہو گا یا شائد تین دن سے سویا ہی نہیں جس کو باپ کے سینے سے لگ کے سونے کی عادت ہے وہ کیسے سو پایا ہو گا اور اگر سویا نہیں ہو گا تو تین دن کیسے جاگا ہو گا۔ دوسال کا بچہ تین دن اندھیرے میں ماما بابا کو پکارتے ہوئے کیا سوچتا ہو گا، اس کو کچھ بھی نظر نہیں آرہا، بہن بھائیوں کی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی۔ وہ جو نرم بسترمیں سونے کا عادی ہے اس کے نیچے فرش اور اوپر کنکریٹ کی سل ہے۔
کروٹ بھی نہیں لے پا رہا ہل بھی نہیں پا رہا اس نے کتنی بارماں کو آوازدے کے بتایا ہو گا کہ ماما مجھے یہاں ہائی ہو رہی ہے۔ ماما بھوک لگی ہے، بابا مجھے سوسو کرنا ہے، ماما مجھے پوٹی کرنی ہے۔ مگر کسی بھی آواز کا جواب نہیں ملا۔ کیا کوئی ماں باپ ایسا بھی ہو سکتا ہے کو دو سال کے بچے کو ایسے گھپ اندھیرے میں مرنے کے لیے چھوڑ سکتا ہے، یا اس کے زہن میں یہ آتا ہو گا کہ میں گم گیا ہوں مگر کیسے گم گیا میں تو اپنے بابا کے ساتھ سویا تھا، اب بھوک سے آواز نہیں نکل رہی۔
سانس بھی دھیرے دھیرے آہستہ ہو رہی۔ جسم اکڑنا شروع ہو گیا کہ بچے تو ہروقت حرکت میں رہتے ہیں، دو سال کا بچہ جس کو باپ ہر ہفتے نئے کپڑے لا کر پہناتا، کپڑے میل سے اٹے ہیں کہیں خون کے دھبے بھی ہونگے، پاوں میں جوتا نہیں۔ منہہ کسی نے دھویا نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی اس کے گلے شکوے سننے والا نہیں، وہ اپنا درد کسے بتائے وہ کتنی بار ماما ماما پکارا ہوگا، کتنی آوازیں بابا کو دی ہونگیں۔ وہ کتنی باررویا ہو گا کتنی بار چیخا ہوگا، کتنی بارآوازحلق میں دب کررہہ گئی ہو گی۔
وہ کیا کرے اس نے یہ کتنی بار سوچا ہو گا مگر ابھی تک دماغ نے مشکل میں صرف ماما بابا کو پکارنا ہی سیکھا ہے تو وہ اس مشکل میں اس تکلیف میں سے اس کو کیوں نکال نہیں رہیں، اس کے آگے فقط یہی سیکھا ہے کہ اس کے ماما بابا گندے ہیں اس سے پیار ہی نہیں کرتے اس کے آگے دماغ کی حد ختم ہو جاتی ہے وہ پھر سے ماما بابا پکارنا شروع کر دیتا ہے۔ پکارے جا رہا ہے پکارے جا رہا ہے، الفاظ میں اب آواز نہیں فقط اک خاموش پکار ہے، اب آواز نہیں بس سانس ہے اور ایک نقاہت ہے جو بڑھتی جا رہی ہے۔ فقط دو سال کا بچہ، منوں کنکریٹ کے نیچے سانس رکنے کو ہے، چراغ بجھنے کو ہے۔ اب منظر دھندلا رہا ہے سانس اکھڑ رہی ہے، معصوم بچہ اب شائد۔۔۔۔۔۔
اب انکھوں میں پانی ہے اور ہاتھ کپکپا رہے ہیں مجھے اپنا دو سال کا بیٹا نظر آرہا ہے اب لکھا نہیں جا رہا کیوںکہ اب وہ آنکھ سے اوجھل منظر مجھے نظر آ رہا ہے، کاش ترکی شام کے زلزلے کے نتیجے میں ملبے تلے دبے سارے لوگ زندہ نکال لیے جائیں،، کاش