پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنے کا قانون کالعدم

10 Feb, 2022 | 01:14 PM

Malik Sultan Awan

ملک اشرف: لاہورہائیکورٹ نے پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنے کا قانون کالعدم کر دیا،عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پاسپورٹ ایکٹ میں بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں،نواز شریف، شہباز شریف کیسز پر اعلی عدلیہ کے احکامات کے حوالے بھی فیصلے کا حصہ ہیں، مزید کہا گیاہے کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بلیک لسٹ قانون کو ختم کرنے پر اسکے سنگین اثرات کا خدشہ ظاہر کیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے بلیک لسٹ مفرور ملزم کے پاسپورٹ کی عدم تجدید کیخلاف درخواست پر فیصلہ جاری کیا، فیصلہ میں کہا کہ قانون میں اگر کوئی خامی ہو تو پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، آزاد معاشرے کیلئے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ضروری ہے، خدشات کی بنیاد پر ریاستی مداخلت کیخلاف بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ ترجیح ہے، مسلم لیگ نواز کیس 2007ء میں سپریم کورٹ آزاد معاشرے کیلئے بنیادی انسانی حقوق کو ریاستی مداخلت پر ترجیج دے چکی ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا بنیادی آئینی حقوق آئین کے دل اور روح ہوتے ہیں، سفر کرنے کا حق عالمی طور پر بنیادی انسانی حق تسلیم کیا جا چکا ہے، کسی بھی شہری کا سفر کرنا اور بیرون ملک جانا بنیادی حقوق کے آرٹیکل کا جز ہے، آئین کا آرٹیکل 15 پاکستان میں رہنے، آزادانہ گھومنے اور ملک میں کسی بھی جگہ رہائش اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ریاستی مشینری کو کوئی ایسا اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں جو اسے قانون میں نہ دیا گیا ہو، ایگزیکٹو کا بلااختیار اور ذہن کا استعمال کئے بغیر کیا گیا ہر عمل غیر قانونی تصور ہو گا، 
پاسپورٹ ایکٹ 1974ء، ای سی ایل آرڈیننس 1981ء بیرون ملک سفر سے متعلق قوانین ہیں، حکومت کسی بھی شہری کا پاسپورٹ منسوخ کرنے سے 2 ہفتے قبل اظہار وجوہ کا نوٹس دینے کی پابند ہے۔ وفاقی حکومت بغیر نوٹس صرف ایسے شہری کا پاسپورٹ منسوخ کر سکتی ہے جو ملکی مفاد کیخلاف کام کر رہا ہو، وفاقی حکومت نے درخواستگزاروں کو نہ تو پاسپورٹ واپس کرنے کا کہا اور نہ ہی انکا پاسپورٹ منسوخ کیا۔
وفاقی حکومت نے درخواستگزاروں کیخلاف پاسپورٹ اینڈ ویزا مینوئل کے پیرا 51 کے تحت کارروائی کی،پاسپورٹ ایکٹ میں بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں، 
وفاقی حکومت پاسپورٹ ایکٹ کی دفعہ 8 کے تحت صرف پاسپورٹ قبضے میں لے سکتی یا منسوخ کر سکتی ہے، پاسپورٹ ایکٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی شہری کو بلیک لسٹ کیا جائے، پاسپورٹ اینڈ ویزا مینوئل کا بلیک لسٹ کرنے سے متعلق پیرا 51 قانون ساز پالیسی کیخلاف ہے۔
پاسپورٹ رولز 1974ء میں بھی بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے،  ایگزٹ کنٹرول آرڈیننس 1981ء کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی شہری کو بیرون ملک سفر کرنے سے ہی روک سکتی ہے، وفاقی حکومت صرف سنگین جرائم میں ملوث افراد کے نام ہی ای سی ایل میں شامل کر سکتی ہے،غیر ملکی سرمایہ کاری، نامور بنکوں اور کمپنیوں سے فراڈ کے ملزموں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جا سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور بنکنگ کورٹ کے علاوہ کسی عدالت کو کسی شہری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دینے کا اختیار نہیں،کسی فرد کیخلاف جرم میں ملوث شہری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اختیار وفاقی حکومت کو نہیں، نجی، دیوانی کیسز میں بھی کسی شہری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے لا اختیار وفاقی حکومت کو نہیں ہے،
پاسپورٹ منسوخ کرنے کے وفاقی حکومت کے فیصلے بھی عدالتی نظر ثانی سے مشروط ہیں۔
وفاقی حکومت مکینکل طریقے سے کسی کا پاسپورٹ منسوخ نہیں کر سکتی، گڈ گورننس کیلئے حکومت رولز بنانے کی مجاز مگر ایسے رولز آئین سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں، 
آئین کے آرٹیکل 4 کے تحت ہر شہری جہاں کہیں بھی ہو اسے قانون کے مطابق تحفظ حاصل ہے،امن، سکیورٹی اور معاشرے کے مفادات کسی بھی معاشرے کیلئے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا ریاست اگر خطرے میں ہو تو بنیادی حقوق بے معنی ہو جاتے ہیں، ریاست اور بنیادی حقوق کے معاملے پر توازن برقرار رکھنا لازم و ملزوم ہے،  2004ء کے شہباز شریف کیس میں کسی بھی شہری کو وطن واپس آنے سے نہ روکنے کا کہا گیا ہے۔ یاد رہے کہ شیخ شان الہی اور سید انور شاہ نے پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنے کیخلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔

مزیدخبریں