ویب ڈیسک : وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ میں شازیہ بی بی کو (بارڈر ملٹری پولیس) راجن پور میں تعیناتی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوا ہےکہ ہماری خواتین ہر میدان میں مقابلہ کر سکتی ہیں۔اس کی تقرری سے یقیناً مزید لڑکیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
پاکستان کے تمام شعبوں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں ۔ خواتین پاک فوج ،پولیس اور میڈیکل کی فیلڈ میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ بارڈر ملٹری پولیس میں ایک خاتون کی تعیناتی کی گٗئی ہے ۔ جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ میں شازیہ بی بی کو (بارڈر ملٹری پولیس) راجن پور میں تعیناتی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوا ہےکہ ہماری خواتین ہر میدان میں مقابلہ کر سکتی ہیں۔اس کی تقرری سے یقیناً مزید لڑکیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
I would like to congratulate Shazia Bibi on her appointment in BMP (Border Military Police) Rajanpur. This once again proves that our women can compete in every field.
— Usman Buzdar (@UsmanAKBuzdar) February 10, 2022
Her appointment will surely encourage more girls. Best of luck! pic.twitter.com/nPmgp0WlyJ
برطانوی راج کے دوران راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے قبائلی اور پہاڑی علاقوں میں لا اینڈ آرڈر کو دیکھنے کے لیے پنجاب بارڈر ملٹری پولیس ایکٹ 1904 لایا گیا جس کے تحت بارڈر ملٹری پولیس اور بلوچ لیوی متعارف کروائی گئی۔ بلوچ لیوی تو تقریبا ختم ہو چکی ہے جبکہ 100سال زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بارڈر ملٹری پولیس آج بھی قائم ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں واقع ان مخصوص پہاڑی اور قبائلی علاقوں میں یہی فورس کام کر رہی ہے جبکہ وہاں پنجاب پولیس یا ضلعی پولیس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان کے دواضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے تین سو کلومیٹر پر محیط علاقے جو صوبہ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا اور سندھ سے پنجاب کے میدانی علاقوں سے ملحق ہیں۔ ان اضلاع کا باون فیصد علاقہ قبائلی علاقہ کہلاتا ہے بارڈر ملٹری پولیس اس علاقہ کی فرنٹ لائن کادرجہ رکھتی ہے جس کے 18 تھانے موجود ہیں۔
انگریزوں کے دور میں جنم لینے والی بارڈر ملٹری پولیس ایک جاندار اور بنانے والوں کیلئے کار آمد فورس تھی مزاحمتی تحریکوں کے خاتمے اور ان پیچیدہ علاقوں میں امن کے قیام میں اس کا اچھا کردار رہا مگر قیام پاکستان کے بعد وہ حالات ہی ختم ہوگئے جس کیلئے اس کا قیام ناگریز تھا۔حکومتوں نے توجہ ہٹا لی فورس کی تعداد کم ہوتے ہوتے آدھی رہ گئی تین عشروں سے زائد عرصہ نئی بھرتی پر پابندی نیاس کی افادیت ختم کر کے رکھ دی اسی فورس کے لوگ ریٹائر ہو کر یا میڈیکل بنیادوں پر ریٹائر ہو کر حکومتی پالیسی اور مروجہ قوانین کے مطابق اپنے بیٹوں کو ملازمت دلا دیتے ہیں
واضح رہے آج دنیا بھر میں خواتین یہ بات ثابت کررہی ہیں کہ کئی دشواریوں اور مسائل کے باوجود وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ تاریخ میں ایسی کئی خواتین موجود ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں اپنا اور ملک کا نام روشن کیا۔ پاکستان کی بات کی جائے تو مردم شماری میں سامنے آنے والے اعداد وشمار کے مطابق یہاں مردوں کی تعداد خواتین سے زیادہ ہے، اس کے باوجود ایسا کوئی شعبہ نہیں جہاں خواتین مردوں سے پیچھے ہوں۔وہ شعبے جن کا حصہ صرف مرد بنتے تھے اور عورتوں کو ان سے دور رکھا جاتا تھا، آج ان میں بھی خواتین بھر پور انداز میں اپنے جوہر دکھا رہی ہیں۔
2017 میں پاکستان میں مردم شماری ہوئی تھی، اس ملک بھر سے جمع کیے گئے اعداد وشمار میں کئی حقائق آشکار آئے تاہم یہ بھی سامنے آیا کہ مردوں کی تعداد 51.24 فیصد جبکہ خواتین کی 48.76 فیصد ہیں۔ پاکستان میں 154 اضلاع ہیں، جن میں 17 اضلاع ایسے ہیں جہاں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔پاکستانی معاشرے میں تیز رفتار ترقی اور سماجی مساوات کو یقینی بنانے کے لیے خواتین کو بھی مردوں کے برابر حقوق دینے، خاص طور پر دیہی علاقوں کی محنت کش خواتین کو ان کے جملہ طبی، تعلیمی اور قانونی حقوق دیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔