گورننس کا نیا ماڈل

10 Feb, 2019 | 08:29 AM

قیصر کھوکھر

( قیصر کھوکھر) پنجاب کی بیوروکریسی میں اصلاحات لانے اور گورننس کا نیا ماڈل لانے کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی سفاشات وزیر اعظم کو پیش کر دی ہیں جس کے تحت تین یا چار محکموں کو ملا کر ان کے اوپر ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری رینک کا افسر انچارج بنایا جائے گا۔ اس طرح چیف سیکرٹری کے ماتحت براہ راست سیکرٹریوں کی بجائے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہونگے۔ اور سیکرٹریوں کے اوپر سینئر سیکرٹری یا ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہونگے۔ اس آئیڈیا کو کسی بھی صورت سپورٹ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے بیوروکریسی کے حجم میں تو خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا لیکن عوام کے مسائل پہلے کی طرح جوں کے توں رہیں گے۔

 ایک وقت تھا کہ محکمہ میں سیکشن افسر اور اس کے اوپر ڈپٹی سیکرٹری اور پھر سیکرٹری ہوتا تھا اور عوام کو کم وقت میں ریلیف بھی ملتا تھا اور مسائل بھی حل ہوتے تھے لیکن بعد ازاں سیکرٹری سے پہلے ایڈیشنل سیکرٹری کا عہدہ پیدا کیا گیا اور اب حال ہی میں ایک سپیشل سیکرٹری کا عہدہ پیدا کیا گیا ہے جس سے فائل کی ورکنگ لمبی ہو گئی ہے اور فائل ان افسران سے گھوم کر سیکرٹری کے پاس پہنچتی ہے اور سائل کے مسائل میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ حال ہی میں پولیس میں یہ تجربہ کیا گیا ہے اور ایڈیشنل آئی جی کی 14نئی اسامیاں پیدا کی گئی ہیں۔ جہاں پر ایک ایڈیشنل آئی جی کام کرتا تھا اب وہاں آئی جی آفس میں چودہ ایڈیشنل آئی جی کام کر رہے ہیں۔

 اسی طرح ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کی اسامیوں میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن اس سے تھانہ کلچر میں تو کوئی بہتری نہیں آئی ہے لیکن پولیس بیوروکریسی کے حجم میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے اور تھانوں میں آج بھی نفری کی کمی کی شکایت موجود ہے اور اس طرح نیا ملنے والا بجٹ بھی ان افسران کے لئے گاڑیوں اور دفاتر کی تزئین و آرائش پر خرچ ہو جاتا ہے اور تھانے میں آج بھی سائل رل رہے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حکومت پنجاب کو فوری طور پر سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کی جانب سے پیش کیا جانے والا گورننس کا نیا ماڈل مسترد کر دینا چاہئے اور پہلے سے موجود بیوروکریسی کی ڈاﺅن سائزنگ کرنا ہوگی۔

 تحصیل، ٹاﺅن اور ضلع کی سطح پر افسران کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے لیکن پنجاب سول سیکرٹریٹ اور آئی جی آفس میں افسران کی تعداد میں کمی ہونی چاہئے تاکہ اختیارات کی مرکزیت ختم کی جا سکے اور اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے تاکہ ایک عام سائل کو اپنے مسائل کے لئے لاہور نہ آنا پڑے، ان کے مسائل ان کی تحصیل اور متعلقہ ضلع میں ہی حل ہو سکیں۔ تین یا چار محکموں کے اوپر ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری بنانے سے بیوروکریسی کی تعداد میں بے پناہ اضافے کے ساتھ ساتھ خزانہ پر بھی ایک بوجھ بڑھ جائے گا۔ پہلے سیکرٹری سائل کو نہیں ملتے اور پھر ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو کیسے ملا جائے گا کیونکہ پنجاب سول سیکرٹریٹ کو دورہ کریں تو ہر سیکرٹری اورہر افسر نے اپنے کمروں کے باہر دربان بٹھا رکھے ہیں اور کسی سائل کا پہلے تو پنجاب سول سیکرٹریٹ میں داخلہ ہی بڑی مشکل سے ملتا ہے اور پھر افسران کو ملنا محال بن کر رہ گیا ہے۔ نئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری بنانے سے فائلیں ایڈیشنل چیف سیکرٹری تک جائیں گی اور سائل کا جو کام دو دن میں کام ہوتا ہے وہ اب چار دن میں ہوگا لیکن اس سے افسران کی موجوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

حکومت پنجاب اس سے قبل محکمہ ایجوکیشن اور محکمہ ہیلتھ کے حصے بخرے کر چکی ہے۔ محکمہ ایجوکیشن کے پانچ محکمے بنا دیئے گئے اور محکمہ ہیلتھ کے دو محکمے بنائے گئے لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں، آج بھی ہسپتالوں میں مریض رسوا ہو رہے ہیں اور ڈاکٹر انہیں حیلے بہانے سے اپنے نجی کلینک پر لے کر جا رہے ہیں جہاں ان سے بھاری فیس بٹوری جاتی ہے۔ نئے محکمے بنانے یا نئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری تعینات کرنے سے قبل موجودہ بیوروکریسی میں اصلاحات لائی جائیں اور افسران کو عوام کے تابع کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ عوام کی خدمت ہی ان کا فرض ہے اور یہ کہ اسی لئے وہ نوکری میں ہیں۔ کسی بھی ضلع یا تحصیل کا دورہ کیا جائے تو وہاں پر سرے سے افسران موجود ہی نہیں ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے تین ضلعی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور تینوں جگہ پر وہاں کے ڈپٹی کمشنر کو تبدیل کرنا پڑا کیونکہ وزیر اعلیٰ نے حکم دے رکھا ہے کہ ہر افسر روزانہ دو گھنٹے اپنے دفتر کے دروازے کھول کر رکھے لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہو پا رہا ہے۔

ان سب مسائل کا حل یہ ہے کہ ہر محکمہ کے ضلع اور ڈویژن کی سطح پر ڈائریکٹوریٹ بنائے جائیں اور ان ڈائریکٹوریٹ کو فعال بھی کیا جائے اور تمام ایچ آر کے معاملات محکموں کے ڈی جی کو سونپ دیئے جائیں اور سیکرٹریوں کو پالیسی بنانے، اوور لک کرنے اور گائیڈلائن دینے پر فوکس کرنا چاہئے تاکہ بہتر طور پر پلاننگ ہو سکے۔ اس طرح اختیارات ضلع اور ڈویژن کی سطح پر منتقلی سے مسائل بہتر طور پر حل ہو سکیں گے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے نئے عہدے پیدا کرنے سے افسران شاہی کی موجیں تو ہو سکتی ہیں لیکن عوام کے مسائل بڑھ جائیں گے۔

مزیدخبریں