(مانیٹرنگ ڈیسک) غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.7 ارب ڈالر کی انتہائی کم ترین سطح پر گرنے کے باوجود حکومت ڈالر کی اسمگلنگ روکنے میں ناکام رہی،ڈالر پھلوں کے کریٹوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت سے افغانستان جاتے رہے۔
یہ انکشاف ایک اجلاس میں سامنے آیا، جس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کسٹمز ایکٹ سرحد پار کرنسی کا بہاؤ روکنے کیلئے نئی پابندیوں سے مطابقت نہیں رکھتا، جس سے اسمگلروں کے خلاف فوجداری مقدمات کے اندراج میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں کو وزیر خزانہ اسحقٰ ڈار نے وزارت خزانہ بلایا، ریاست اپنی سرحدوں اور بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی حفاظت میں ناکام رہی جو اسمگلنگ کے اڈوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
وزیر خزانہ نے ایک بین وزارتی اجلاس کی صدارت کی جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈالر، گندم اور کھاد کی افغانستان اسمگلنگ روکنے میں ناکام کیوں رہے۔
وزارت خزانہ کی پریس ریلیز کے مطابق اجلاس میں بریفنگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کنوؤں کے کریٹس کے ذریعے ڈالر افغانستان اسمگل کیے جا رہے ہیں۔حکومتی عہدیداروں نے انکشاف کیا کہ معذور افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی افغانستان کرنسی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔
تاہم زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح روڈ میپ بھی موجود نہیں،دوران اجلاس انسداد اسمگلنگ نظام کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیر خزانہ نے ملک کی معاشی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے اس مقصد کے لیے تمام ضروری پلیٹ فارمز کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اسمگلنگ کی لعنت سے نمٹنے کے بارے میں واضح روڈ میپ ہونے کے بعد اجلاس اگلے ہفتے دوبارہ بلایا جائے گا۔