فرزانہ صدیق : ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں گھریلو ملازمہ تشدد کیس میں سول جج کی اہلیہ سومیہ عاصم کی ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست پر سماعت کے بعد آج سہ پہر ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔
آج جمعرات کے روز سول جج کی اہلیہ کی جانب سے گھریلو ملازمہ پر تشدد کیس میں ملزمہ کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سیشن کورٹ اسلام آباد میں سماعت ہوئی ، ڈیوٹی جج جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے ملزمہ کی درخواست پر سماعت کی ، وکیل صفائی قاضی دستگیر اور مدعی وکیل فیصل جٹ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
مدعی کی جانب سے نئے وکیل فیصل جٹ کا وکالت نامہ جمع کروا دیا گیا،وکیل مدعی کی جانب سے کیس کی تیاری کیلئے مہلت دینے کی استدعا کی گئی ، جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ آپ وقت لے لیں لیکن آج دلائل دیں،وکیل صفائی نے کہا کہ کچھ دستاویزات فراہم کرنے کیلئے درخواست دے رہا ہوں،سرگودھا میں جو ملزمہ کا رات 3 بجے میڈیکل ہوا اس کی رپورٹ چاہیے۔
وکیل صفائی:سرگودھا میں ہونے والی میڈیکل کے بعد سومیق عاصم کے خلاف ایف آئی آر میں دفعات میں اضافہ کیا گیا،
جج شائستہ کنڈی :بچی والدین کے حوالے کب ہوئی،
وکیل صفائی:سکائی وے اڈے پر 8 بجے 23 جولائی کو بچی کو والدین کے حوالے کیا گیا،
وکیل صفائی :ایف آئی آر کے مطابق بچی رات 3 بجے سرگودھا ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچتے ہیں ،
وکیل صفائی:رات 3 بجے کی ہسپتال پہنچنے پر میڈیکل رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی،
تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ کے والدین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
رضوانہ کی والدہ روسٹرم پر آ گئیں۔
رضوانہ کی والدہ : میری بیٹی پر ظلم ہوا ، بیٹی جب کار سے نکلی تو کار ڈرائیور نے بھی دھمکی دی ۔
جج شائستہ کنڈی : والدہ کو بچی کب حوالے کی گئی ،
وکیل صفائی قاضی دستگیر: سکائی ویز اڈے پر 23 جولائی 2023 کو 8 بجے بچی صحیح سلامت والدہ کے حوالے کی گئی ۔ ایف آئی آر کے مطابق رات تین بجے ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا پہنچ گئے ۔ سرگودھا کی ایم ایل سی آج تک سامنے نہیں آئی ۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ بچی کو لینے کیئے ملزمہ کے گھر گئے۔ ایف آئی آر کے مطابق سومیہ ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھی ۔اڑھائی گھنٹے بچی بس اسٹینڈ پر موجود رہی ۔ بچی کے سر میں اگر کیڑے پڑے ہوتے تو وہ اپنا سر کھجاتی ۔ جب بچی حوالے کی نہ تو تشدد تھا اور نہ سر میں کیڑے تھے نہ پسلیاں ٹوٹی تھیں ۔ وکیل صفائی نے بس اڈے پر بچی حوالگی کی ویڈیو عدالت میں پیش کر دی۔
جج شائستہ کنڈی: ویڈیو میں تو بچی کو اٹھا کر بس میں سوار کروایا جارہا ہے ۔ گاڑی سے اترنے کی ویڈیو بھی عدالت کو دکھائیں ۔
وکیل صفائی : من گھڑت کہانی اڑھائی گھنٹے کی ویڈیو میں سامنے آئے گی ۔ دس منٹ تک بچی کی والدہ شمیم بچی رضوانہ ملزمہ سومیا کے ساتھ گاڑی میں موجود رہی۔
جج کی مظلوم بچی کی والدہ سے مخاطب ہو کر کہا، "سچ بتائیں گاڑی میں کیا بات ہوئی تھی"
مظلوم بچی کی والدہ شمیم : ملزمہ سومیہ کے ڈرائیور نے دھمکیاں دیں ۔ مجھے کہا گیا کہ بچی کام نہیں کرتی۔ جب بچی سے پوچھا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
جج شائستہ کنڈی: کیا آپ کی بچی سکارف پہنتی ہے ۔
والدہ شمیم: سکارف پہنانے کا مقصد زخم چھپانا تھا ۔
وکیلِ صفائی : سومیہ عاصم کے خلاف دفعہ 324 چھ دنوں بعد مقدمے میں ڈالی گئیں، سات ماہ حبس بے جا میں رکھنے کا الزام ہے، والدہ نے تو فون پر بھی بات کی،معلوم نہیں والدہ کس کے ساتھ ساتھ فون پر ڈھائی گھنٹے بات کرتی رہی،ویڈیو کے مطابق بچی کی والدہ مسلسل اڑھائی گھنٹے موبائل فون پر رہتی ہے ، کسی کی بچی اتنی زخمی ہو اور وہ مسلسل موبائل فون پر کیسے رہ سکتا ہے، وکیلِ صفائی کی جانب سے سرگودھا والی طبی رپورٹ مہیا کرنے کی استدعا کردی گئی۔
جج شائستہ کنڈی : بچی زخمی تو ہے نا ،زخمی کس نے کیا،
وکیل صفائی : بچی کی والدہ نے ویڈیو پر بیان دیا جو ریکارڑ پر موجود ہے،
وکیل صفائی: دیہات میں دیکھا جا سکتا ہے خواتین ملتانی مٹی کھایا کرتی ہیں، بچی مٹی کھانے کی عادی تھی ،پودوں میں کھاد دی گئی اور بچی نے وہ مٹی کھائی، جس کی وجہ سے بچی کو دانے نکلے ،لیکن بچی کو والدین کو صحیح سلامت حوالے کیا گیا،
جج شائستہ کنڈی کا وکیل صفائی سے استفسار: اس کا کوئی ثبوت ہے؟؟؟ ایسی کوئی بات نہ کریں جو کا ثبوت آپ کے پاس موجود نہیں۔
جج شائستہ کنڈی:آپ قانونی حوالے دیں ،قانون کیا کہتا ہے،
وکیلِ صفائی : مقدمے میں مٹی کو کھانے کا زکر نہیں، اس کو زہر کا تاثر دیاجارہا، بچی کے ساتھ کوئی خاتون ایسا تشدد کیسے کرسکتی ہے؟ کوئی سوچ بھی کیسے سکتا۔ میڈیا پر کالے زخم دکھائے جارہے، ہم خاموش ہیں۔ بچی طورخم بارڈر پر سول جج کی فیملی کے ساتھ انجوائے کررہی تھی، میرے پاس تصاویر ہیں۔
جج عائشہ کنڈی کا وکیلِ صفائی سے استفسار: کیا تصاویر موجود ہیں؟
وکیلِ صفائی : میرے پاس تصویریں ابھی موجود نہیں، لا دوں گا، سومیہ عاصم سول جج کی اہلیہ ہیں،
جج عائشہ کنڈی: چھوڑ دیں، سول جج کی اہلیہ، یہاں سومیہ عاصم ملزمہ ہیں، اب نہیں کہنا،
وکیل صفائی: بچی سومیہ عاصم کے پاس ملازمت پر نہیں تھی،
جج: دو دن پہلے سومیہ عاصم نے عدالت میں کہاکہ بچی کو پیسے دیتی رہی،
وکیل صفائی : امریکہ میں زنیرا نامی عورت امداد بھیجواتی تھی، وہی بچی کے والدین کو دیتے تھے،
وکیل صفائی : رضوانہ کے والدین کے پاس کوئی گھر نہیں تھا، دس ہزار امداد سومیہ بھی دیتی تھیں،
جج شائستہ کنڈی کا استفسار : گھر میں کیوں بچی کو رکھا ہوا تھا،
وکیل صفائی : شادی پر ملاقات ہوئی، فیصلہ ہوا کہ تین تین بچیاں لے کر جائیں گے امداد دیں گے،
جج شائستہ کنڈی : کیا بچی کو کسی سکول میں داخل کروایا ہوا تھا،
وکیل صفائی: بچی اوور ایج ہے سولہ سال عمر ہے سکول میں داخل نہیں تھی۔
وکیل صفائی : بچی کو قاری صاحب بھی آکر گھر میں قرآن پڑھاتے تھے، فلاحی نیت سے رکھی ہوئی تھی،
جج کا استفسار: کیا کوئی دستاویزات ہیں کہ بچی کو امداد دی جاتی تھی؟
وکیل صفائی : میرے پاس کوئی دستاویزات نہیں، فلاحی کام کا مثالی کیس ہے،
جج شائستہ کنڈی نے دلائل دوہرائے
وکیل صفائی کہہ رہے کہ فلاحی کام کا مثالی کیس ہے، آپ بار بار زبانی باتیں کر رہے، پچاس ہزار کیوں بھیجا؟
وکیل صفائی: صاف سی بات ہے، سومیہ عاصم کو بلیک میل کیاگیا،
جج شائستہ کنڈی : ایک جج کیسے بلیک میل ہوا،
وکیل صفائی: جج بھی انصاف حال نہیں کر پا رہا،
جج شائستہ کنڈی: کیوں ہم نے دو دن پہلے انصاف فراہم نہیں کیا ،
وکیل صفائی : سومیہ عاصم اور امریکہ میں رہنے والی زنیرا کا معاملہ ہے،
جج شائستہ کنڈی: سومیہ عاصم یا زنیرا کا معاملہ تو نہیں، کوئی فلاحی کام کا معاہدہ تھا؟
وکیل صفائی: فلاحی کام کے دستاویزات موجود نہیں، صرف زبانی باتیں ہیں،
پراسیکیورٹر وقاص حرل کے دلائل
وکیلِ صفائی نے تمام زباںی کلامی باتیں کی ہیں، مفروضے بنائے،
واقعہ ایک دن کا نہیں، ایک سیریز پر مبنی واقعات ہوئے ہیں،
بچی سول جج کے گھر میں تھی اور اس کو مان بھی لیا گیا،
جج شائستہ کنڈی: سول جج کے گھر میں بچی تھی لیکن انجریوں کو تاحال نہیں مانا گیا،
پراسیکیورٹر وقاص حرل: سرگودھا کے سرکاری ہسپتالوں کا حال بھی ہمیں معلوم ہے،
جج شائستہ کنڈی : جب مریض ایمرجنسی میں جاتا ہے تو ہسپتال کی سلپ بن جاتی ہے،
پراسیکیوٹر وقاص حرل: کہا گیا کہ 6 گھنٹے کا وقت کہاں گزارا گیا۔ رضوانہ کے والدین انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ہسپتال والے پولیس کو کال کرتے ہیں، والدین کال نہیں کرتے، گزشتہ سماعت پر میرے سے بھی غلطی ہوئی اور میرے فاضل دوست سے بھی غلطی ہوئی ،انجریز 14 نہیں 17 ہیں رپورٹ کے مطابق۔
وکیل صفائی نے مداخلت کر دی اور دعویٰ کیا کہ بچی کے جسم پر زخموں کی تعداد بعد میں بڑھائی گئیں،
پراسیکیوٹر وقاص حرل: باقی سب تو رشتےدار ہیں ایک نیوٹرل بندے کا بھی بیان ریکارڑ پر موجود ہے، بس کے ڈرائیور کا بیان ریکارڑ پر موجود ہے۔
جج شائستہ کنڈی: اس کا بیان کیا ہے ،
پراسیکیوٹر وقاص حرل: بیان میں ڈرائیور نے کہا ایک بچی زخمی حالت میں تھی،
پراسیکیوٹر وقاص حرل: ایک عورت اور دو مرد بچی کو لے کے گاڑی میں سوار ہوئے،
پراسیکیورٹر وقاص حرل نے گواہان کی لسٹ عدالت کو مہیا کردی۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل: سول جج کے گھر 4 سال سے ایک استاد ٹیوشن پڑھانے آرہا ہے، گھر میں آنے والے استاد نے بتایا ہے کہ اس نے دیگر بچوں کو پڑھایا لیکن رضوانہ کو کبھی نہیں پڑھایا،
پراسیکیورٹر وقاص حرل: تمام انجریوں کےلیے ریڈیولوجسٹ اور دیگر ماہرین کو بھیجا گیا، رضوانہ کی انجریوں کی تفصیلات لینی تھیں اس لیےطبی ماہرین کو معاملہ بھیجاگیا،
پراسیکیورٹر وقاص حرل: مقدمے میں درج گواہان والد والدہ اور مامون کا بیان موجود ہے،
پراسیکیورٹر وقاص حرل: رضوانہ کا بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جو سب سے بڑا ریکارڈ ہے، ریکارڈ میں رضوانہ کی تصاویر بھی موجود ہیں، انجریوں کی نوعیت دیکھی جا سکتی، وکیلِ صفائی کی جانب سے دی گئی ویڈیؤ کو فرانزک کے لیے بھیجا جانا چاہیے، سی سی ٹی وی میں بچی کی حالت عیاں ہے، مشکل سے لیٹی ہوئی ہے۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل نے عدالت کو یاد دلایا کہ سومیہ عاصم کےخلاف تو ناقابلِ ضمانت دفعات لگی ہوئی ہیں،
طاہرہ بتول کیس کا حوالہ دے کر پراسیکیورٹر وقاص حرل نے درخواست ضمانت خارج کرنے کی استدعا کی۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل : سومیہ عاصم کی جانب سے بیتابی سے جرم کیا گیا ہے۔
عدالت نے پراسیکیورٹر سے مختلف عدالتی فیصلوں کی کاپیاں جمع کروانے کی ہدایت کردی۔
جج شائستہ کنڈی: میں 2 بجے سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سناؤں گی،
جج نے پراسیکیوٹر کو عدالتی فیصلوں کے حوالے اور کاپیاں مہیا کرنے کے لئے وقت مہیا نہیں کیا اور کہا آپ سرکاری وکیل ہیں، ایک ہی دلائل دیتےہیں،کاپیاں تو آپ کے پاس ہونی چاہیے۔
سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت پر دو بجے تک فیصلہ محفوظ کر لیا۔
مدعی کے وکیل کے دلائل
مدعی وکیل فیصل جٹ : ویڈیؤ دیکھی گئی، تمام نظریں کیس پر ہیں، ابھی بات لگی کہ عدالت نے کہا سول جج کی اہلیہ ہیں لیکن انصاف ملےگا،والدین عدالت میں موجود ہیں، رو رہے ہیں۔جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں جہاں زخم نہ ہوں، پورا معاشرہ رضوانہ کے کیس سے پریشان ہیں، سومیہ عاصم سے آلہ تشدد بھی برآمد کرنا ہے،
مدعی وکیل فیصل جٹ نے سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت کی مخالفت کردی۔