ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نواز شریف کا سیاسی مستقبل 

حروف : نوید چودھری 

نواز شریف کا سیاسی مستقبل 
کیپشن: File photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ناز و انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہوگا
 زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہوگا 
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں 
جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں جینا ہوگا
 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے پانچ ماہ پہلے ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ساحر لدھیانوی کا کلام سنا کر اپنے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائیوں کا گلہ کیا۔ یہ شکایت درحقیقت اسٹیبلشمنٹ سے تھی کیونکہ ان ججوں کو باجوہ ، فیض نیٹ ورک کٹھ پتلیاں بنا کر نچا رہا تھا۔

 موقع کی مناسبت اور لب و لہجہ سے ان اشعار کی تشریح کریں تو ایک چیز اور واضح ہوتی ہے اور وہ ہے بیزاری۔2017ء میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں اقتدار سے تیسری مرتبہ نکالے جانے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرکے لندن جانے تک کے واقعات نے ان کے مزاج پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ 2022ء میں عمران خان حکومت کی فراغت کے بعد نواز شریف کی پھر پاکستان واپسی سے کچھ عرصہ پہلے اور کچھ عرصہ بعد تک بھی ان کے حوالے سے بہت کچھ ہوتا رہا۔ جس کا مقصد انہیں چوتھی بار وزیر اعظم بننے سے روکنا تھا۔ملکی نظام میں سول حکمرانوں کو محدود کرنے کی مہم یوں تو جنرل مشرف کی رخصتی کے فوری بعد شروع ہوگئی تھی۔

  جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں کو بہت زیادہ تنگ کیا۔ بدنام کرنے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا کا ایک بڑا ڈھانچہ کھڑا کیا۔ عدلیہ کو استعمال کرکے ناک سے لکیریں نکلوائیں گئیں۔ اس سب کے باوجود نواز شریف بطور وزیر اعظم کئی بڑے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔2017 ء میں تو یوں لگ رہا تھا کہ ہر طرح کی مشکلات پر قابو پالیا گیا ، لیکن جس لابی نے اپنے ٹارگٹ پہلے سے طے کر رکھے تھے اس کو یہ سب اچھا نہیں لگ رہا تھا وہ حرکت میں آگئی اور اس کے بعد سب الٹ پلٹ ہوگیا۔ عمران کی وزارت عظمیٰ اور پی ٹی آئی کا دور حکومت اس حوالے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ سول حکمرانوں کے لیے رہی سہی گنجائش بھی تقریباً ختم کردی۔ ہر کام کے لیے’’ جنرل فیض سے کہہ دو ‘‘ والا وظیفہ ایسا چلا کہ خود فوج تنگ آگئی اور سوچنے لگی کہ ’’ہم یہ کس کو اٹھا لائے ہیں ؟ ‘‘ تلافی کی کوشش میں متبادل کے طور پر ظاہر ہے ن لیگ کی ہی ضرورت پڑنا تھی۔سب کو لگ رہا تھا کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بن جائیں ، انہی دنوں الیکشن سے بہت پہلے اسٹیبلشمنٹ کے اس وقت کے سب سے’’ معتبر ‘‘ ترجمان فیصل ووڈا نے سب سے بڑے چینل پر ایک شو کے دوران فیصلہ سنا دیا کہ نواز شریف فارغ ہوچکے ہیں۔ اس چینل نے بھی اس ڈائیلاگ کو خاص اہمیت دی اور پروگرام کے دوران ہی بار بار بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کرنا شروع کردیا۔

 سمجھنے والوں کے لیے اشارہ کافی تھا۔ آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کو باور کرایا جارہا ہے یاکروایا جا چکا ہے کہ آپ کو آزادانہ فیصلے کرنے کی عادت ہے لیکن اب وہ ماحول نہیں رہا ، ہم اور آپ اکٹھے نہیں چل سکتے۔ نواز شریف بھی جان چکے تھے کہ اسی سسٹم میں رہ کر سیاست کرنی ہے تو بات مانے بغیر کوئی چارہ نہیں۔اسٹیبلشمنٹ کی بالا دستی کو دل و جان سے تسلیم کرنے والے شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ ویسے وہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے بھی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ رہے ہیں۔ پنجاب حکومت مریم نواز کو مل گئی۔ وہ صوبے میں محنت کررہی ہیں اور اسی سسٹم میں رہ کر سیاسی میدان اور گورننس میں نام بنا کر آگے جانے کی کوشش میں ہیں، نواز شریف کا کردار ایک بزرگ مشیر کا سا رہ گیا ہے اور اسی پر قناعت کرچکے ہیں۔بلوچستان کی صورتحال ہو ، کے پی کے  کے حالات یا دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ ، ان سب میں اسٹیبلشمنٹ براہ راست فریق ہے۔ جو سیاسی یا صحافتی حلقے یہ تجویز دے رہے ہیں کہ نواز شریف کو سینئر اور مدبر سیاستدان کے طور پر آگے بڑھ کر وسیع تر قومی مفاہمت کے لیے متحرک کردار ادا کرنا چاہیے وہ اس پہلو کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں کہ نواز شریف ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے ان کے بھائی اور بیٹی کی حکومتوں کے لیے کسی بھی طرح کے مسائل پیدا ہوں۔ نواز شریف سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگی رہتی ہیں۔بظاہر اسٹیبلشمنٹ مخالف’’ طرم خان ‘‘ عمران خان کے بارے میں اعظم سواتی کے تازہ انکشافات ہی سن لیں کہ وہ کس طرح سے آرمی چیف کی نظر کرم پانے کے لیے مرئے جارہے ہیں۔ اس لئے اب چاہے جتنی بھی خبریں آئیں کہ نواز شریف متحرک ہوں گے۔

  تمام سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر اکٹھا کریں گے ، ملک گیر دورے کریں گے ، مسلم لیگ ن کی تنظیم سازی کریں گے یا کسی دفتر میں بیٹھ کر عوامی مسائل سنیں گے وغیرہ وغیرہ ، ایسا کچھ بھی ان کے پرانے اور حقیقی انداز میں ممکن نہیں اگر کچھ ہوگا بھی تو محدود سطح پر ، ڈرائنگ روم پالیٹکس ، کبھی کبھار کچھ ملاقاتیں، کسی غمی خوشی میں شرکت ، حالات کی نزاکت دیکھ کر کبھی کبھار کوئی محتاط بیان اوربس - بدھ کو لاہور میں بلوچ رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں نواز شریف نے بلوچستان کے مسائل حل کر نے کے لیے کردار ادا کر نے کی حامی بھر لی ہے ، اللہ کرئے کہ بلوچستان میں امن وامان آئے ، تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع ہو - لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے میاں صاحب کو کس حد تک مینڈیٹ دے گی لیکن یہ طے ہے کہ جو ہوگا اسی کے اندر ہوگا ۔

  لاہور کے تاریخی ورثے کی بحالی اور تحفظ کے لیے بنائی جانے والی’’ اتھارٹی فار ہیریٹج ریوائیول ‘‘ کے پیٹرن انچیف بننے کے عمل کو لوگ بے شک غیر سنجیدہ قدم سمجھیں کہ نواز شریف کی جانب یہ سنجیدہ پیغام ہے کہ وہ کس طرح کی سرگرمیوں کے لیے دستیاب ہوسکتے ہیں۔ اس کے باوجود جو لوگ نواز شریف سے پہلے والی متحرک اور بھرپور سیاست کی امید لگائے بیٹھے ہیں ، وہ بانی ن لیگ کے حوالے سے سیاسی موسم اور موڈکا اندازہ فراز کے اس شعر سے لگا سکتے ہیں۔
 اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے.

 نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر