(ویب ڈیسک ) غزہ پر 6ماہ سے زائد عرصے سے جاری اسرائیلی جارحیت اور وحشیانہ بمباری کا سلسلہ عید کے مبارک موقع پر بھی تھم نہ سکا اور اسرائیلی فوج نے عیدالفطر کے موقع پر بھی بمباری جاری رکھی جس سے متعدد افراد شہید ہو گئے۔
خبر رساں ادارےکے مطابق غزہ میں چھ ماہ کی بمباری میں ملبے اور راکھ کا ڈھیر بننے والے غزہ میں فلسطینیوں نے جمع ہو کر نماز عید ادا کی اور اپنے پیاروں کی یاد میں آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ دکھ درد کو بانٹا،مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ میں نماز عید میں ہزاروں فلسطینیوں نے شرکت کی اور ان نمازیوں میں سے ایک اور نرسنگ کے شعبے سے وابستہ روان ابد نے کہا کہ یہ اب تک کی سب سے مایوس کن عید ہے، آپ لوگوں کے چہرے پر مایوسی دیکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم عموماً مسجد اقصیٰ عید کی خوشی منانے آتے ہیں لیکن آج ہم بس ایک دوسرے کو دلاسہ دینے اور سپورٹ کرنے کے لیے آئے ہیں،فلسطینی وزارت صحت کے مطابق وسطی غزہ کے نصیرہ کیمپ میں ایک گھر پر اسرائیلی فوج کی بمباری سے بچوں سمیت 14 افراد شہید ہو گئے،اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وسط غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوجیوں نے کارروائی کا سلسلہ جاری رکھا اور گزشتہ روز متعدد ’دہشت گردوں‘ کو ہلاک کردیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ فوجی طیاروں نے عسکری اڈوں، لانچرز، سرنگوں اور اہم تنصیبات سمیت ’دہشت گردوں‘ کے متعدد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا،اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ہماری مہم جوئی میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور ہم حماس کی تباہی اور یرغمالیوں کی وطن واپسی تک کارروائیاں جاری رکھیں گے۔
جنگی جنون میں مبتلا نیتن یاہو نے ایک مرتبہ پھر 10 لاکھ سے زائد پناہ گزینوں سے بھرے رفح میں کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اسرائیلی فوجی دستوں کو رفح میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتی۔
نیتن یاہو کا یہ بیانیہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کو بڑی غلطی قرار دے چکے ہیں،منگل کی رات ہسپانوی ٹی وی پر نشر ہونے والے انٹرویو میں جو بائیڈن نے کہا کہ میرے خیال میں وہ بڑی غلطی کررہے ہیں، میں اس سوچ اور حکمت عملی سے اتفاق نہیں کرتا،انہوں نے نیتن یاہو سے چھ سے آٹھ ہفتوں کے لیے مکمل سیز فائر اور ادویہ و خوراک سمیت امداد کی فراہمی کے لیے راہیں فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ قحط کی صورتحال سے درپیش خطے کو فوری انسانی بنیادوں پر مدد پہنچائی جا سکے۔
انسانی حقوق کے گروپوں اور تنظیموں نے اسرائیل پر بھوک اور قحط سالی کو جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے کیونکہ اسرائیلی فوج کے محاصرے کی وجہ سے غزہ میں امداد اور ادویہ پہنچنے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے وہاں لوگ بھوک کی شدت سے نڈھال ہو کر دم توڑ رہے ہیں جبکہ نومولود بچوں کو بھی غذائی قلت کا سامنا ہے۔
نیتن یاہو کی دھمکیوں اور بائیڈن کے مطالبات کے ساتھ دوسری جانب مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں جس میں جنگ کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی رہائی کے لیے بات چیت بھی گفتگو کا محور ہے۔