(ملک اشرف) وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔
وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کے سنگل بینچ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ہے جہاں حکومت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ذریعے اپیل دائر کی۔
لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت سے 1947 سے 2001 تک توشہ خانہ کا ریکارڈ طلب کر لیا اور وفاقی حکومت کی اپیل پر فریقین کو 17 اپریل کیلئے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ۔
جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس محمد رضا قریشی پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس میں توشہ خانہ کے 1990 سے 2001 تک کی تفصیلات پبلک کرنے کے سنگل بینچ کے عدالتی فیصلے کو چیلنج کیا گیا. سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصر احمد نے عدالت کو بتایا کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ وفاقی حکومت نے خود پبلک کیا لیکن خارجی تعلقات کے متاثر ہونے کے اندیشہ پر تحائف دینے والوں کے نام نہیں بتائے۔
اس پر جسٹس محمد رضا قریشی نے ریمارکس دیئے کہ اپیل سے کیا ایسے نہیں لگتا کہ جو ہے وہ بھی لٹانے کے لیے آ گئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ سب کچھ ویب سائٹ پر جاری کر دیا ہے. تحائف دینے والوں کے نام نہ دینے کی حد تک ریلیف چاہتے ہیں. جسٹس شاہد بلال حسن نے استفسار کیا کہ کیا تحائف لینے والے اپنے تحائف ڈیکلئر کر بھی رہے تھے یا نہیں۔ وکیل نے واضح کیا کہ 1990 سے 2001 تک کا ریکارڈ بھی چھپانے کی کوشش نہیں کر رہے۔2002 سے بعد کا ریکارڈ تو کمپیوٹرائزڈ ہےلیکن 1990 سے 2001 کا مصدقہ ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
عدالت نے سرکاری وکیل کو باور کرایا کہ آپ کے پاس ریکارڈ ہونا چاہیے۔ بنچ نے استفسار کیا کہ تحائف دینے والوں کا نام پبلک نہ کرنے کے پیچھے کیا خاص وجہ ہے؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ ایک خاص خطے کے لوگ بہت مہنگے گفٹ دیتے ہیں۔ باقی دنیا کے ممالک ٹوکن گفٹ ہی دیتے ہیں۔جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تو بڑے بڑے پھنسے گے۔ یہاں عوام کی حکومت ہے۔ وکیل نے استدعا کی کہ الیکشن تحائف دینے والوں کے نام نہ آئیں، سب بات کریں گے۔ بنچ نے ہدایت کی کہ 1947 سے 2001 کا ریکارڈ پیش کیا جائے، کیس کی مزید سماعت 17 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔
حسن اور جسٹس رضا قریشی پر مشتمل 2 رکنی بینچ سماعت کرے گا, سنگل بینچ نے 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ کی تفصیل پبلک کرنےکاحکم دیا تھا۔