ویب ڈیسک : بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ ’گنابھابن ‘ ان کی ملکیت میں نہیں تھا مگر ان کووزیر اعظم بنتے ہی الاٹ کیا گیا تھا ۔جس سے ان کو انس ہوگیا تھا ۔ اگست 2024 کے دوران انہیں مستعفی ہوکر انڈیا جانےکے بعد مظاہرین نے اسی رہائش گاہ جس کو وزیراعظم کی رہائش گاہ کا سٹیٹس حاصل تھا اس پر دھاوا بول دیا تھا ۔
اگست میں بنگلہ دیش میں ایسا واقعہ سامنے آیا جو بنگلہ دیش کی تاریخ کا انوکھا اور پہلا واقعہ تھا ۔ مظاہرین نے گنگا بھابن پر توڑ پھوڑ کی اور لوٹ مار کی جو بنگلہ دیش کے شہریوں سے اپنی وزیر اعظم سے نفرت کا اظہار تھا۔ اسی گھر کی ایک تاریخ ہے اور اسی گھر کا تنازع بھی کافی پرانا اور تاریخی حیثیت رکھتا ہے ۔گنا بھابن دراصل سرکاری گیسٹ ہاوس تھا جسے شیخ مجیب الرحمان کے دور میں گنا بھابن کا نام ملا تھا ۔سنہ 1996 میں اقتدار میں آنے کے بعد شیخ حسینہ کو گنا بھابن کی الاٹمنٹ کی گئی مگر 2001 میں سیاسی تنازعات اور اعتراضات کی وجہ سے انہیں یہ گھر چھوڑنا پڑا تھا ۔
مظاہرین کی طرف سے گنابھابن پر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار سے اندازہ ہوا تھا کہ انھیں شیخ حسینہ سے کس قدر اختلاف تھا۔ یہ بنگلہ دیش کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
مگر اس رہائش گاہ کا تنازع کافی پُرانا ہے۔ سنہ 1996 میں اقتدار میں آنے کے بعد شیخ حسینہ کو گنابھابن کی الاٹمنٹ کی گئی تھی۔
پھر 2001 میں سیاسی تناؤ کے نتیجے میں انھیں یہ سرکاری گھر چھوڑنا پڑا۔ لیکن یہ گھر انہیں نگران حکومت کے دوران ہی بغیر کسی عہدے کے ہی دوبارہ الاٹ ہوگیا تھا ۔
2001 میں جب شیخ حسینہ کا دور حکومت ختم ہوا اور انہوں نے نگران حکومت کو اقتدار منتقل کرنا تھا مگر رہائش گاہ کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا ۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں ہی پارلیمان سے ایک قانون منظور کروا لیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ وزیرا عظم کی زندگی کو خطرہ ہے جس کے تحت بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے اہل خانہ کو سیکورٹی دی جائے گی اور اسی قانون کے تحت بنگلہ دیش کے بانی کی بیٹیوں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ کو سپیشل سکیورٹی فورس تحفظ دے گی اور سرکار دونوں کو ایک رہائش گاہ بھی دے گی ۔ اسی قانون کے تحت شیخ حسینہ کو گنا بھابن جبکہ شیخ ریحانہ کو ایک اور سرکاری رہائش گاہ قانون کے تحت الاٹ کردی ۔ کابینہ کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ الاٹمنٹ ان کی سیکورٹی کے لیے دی گئی ہے جو ان کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ حکومت کی ملکیت میں ہی رہے گا ۔ کابینہ کے فیصلے کے تحت شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ کو ڈرائیور، پرسنل اسسٹنٹ، کُک، مالی، سویپر اور دو ذاتی ملازم ملیں گے۔ انھیں کار، ایندھن، ٹیلی فون، بجلی، پانی اور گیس کے اخراجات کی مد میں بھی حکومتی فنڈز کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
رپورٹس میں یہی بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی زندگی کو خطرہ ہونے کی وجہ سے ان کو گنا بھابن میں رہنا چاہیے تاکہ ان کو تحفظ دیا جاسکے ۔
بی این پی کی رہنما خالدہ ضیا نے اسی الاٹمنٹ پر اعتراض کیا کہ جب شیخ حسینہ وزیر اعظم نہیں ہیں تو انہیں سرکاری رہائش گاہ کیوں الاٹ کی جارہی ہے ۔ اخبار میں انٹرویو کےدوران ان کا موقف یہ تھا کہ اگر شیخ حسینہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہیں تو پھر سرکاری رہائش گاہ گنا بھابن چھوڑ دیں اگر الیکشن نہیں لڑنا تو پھر ان کو اس الاٹمنٹ پر کوئی اعتراض نہیں ۔
بی این پی ، خالدہ ضیا کے دباو پر عوامی لیگ نے بھی جوابی کارروائی کی اور خالدہ ضیا سے کنٹونمنٹ ہاوس خالی کرنے کا مطالبہ کردیا ۔ شیخ حسینہ کی حکومت کی جانب سے خالدہ ضیا کے گھر کی لیز منسوخ کرنے کے حوالے سے شوکاز نوٹس بھی بھیجا گیا ۔
1981 کے دوران یہ گھر خالدہ ضیا اور ان کے بیٹوں کو بنگلہ دیش کے صدر ضیاالرحمان کے قتل کے بعد ملا تھا جبکہ اس سےقبل اس گھر میں آرمی چیف اور اس وقت کے صدر ضیاالرحمان بھی رہ چکے تھے یعنی اس گھر کو بھی ایک دور میں وزیر اعظم ہاوس کا سٹیٹس حاصل رہا تھا ۔ اس کا رقبہ دو ایکڑ سے زیادہ تھا ۔
یہیں سے سرکاری گھروں کو متنازعہ بنا نے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ شوکاز نوٹس میں کہا گیا تھا کہ خالدہ ضیا نے لیز کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے کیوں نہ اسے منسوخ کردیا جائے ۔ خالدہ ضیا نے جوابی کارروائی پر گنا بھابن کی الاٹمنٹ کو چیلنج کیا اور کہا اس سے انتخابات کی شفافیت پر اثر پڑے گا۔
2001 کے انتخابات کے بعد بی این پی نے اقتدار میں آکر بانی بنگلہ دیش کےاہل خانہ کی سیکورٹی کا قانون ہی ختم کردیا۔ شیخ حسینہ نے بھی سیاسی تنازعات اور اعتراضات کے بعد گنا بھابن چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے خالدہ ضیا سے بھی کنٹونمنٹ ہاوس چھوڑنے کا مطالبہ کردیا ۔
شیخ حسینہ نے دعویٰ کیا کہ کابینہ نے انہیں گنا بھابن علامتی طور پر 101 ٹکا میں خریدنے کی پیشکش کی تھی جس کو انہوں نے مسترد کردیا تھا ۔اس کےبعد دیگر سرکاری رہائش گاہوں پر بھی یہی پیشکش کی گئی تھی ۔ جس پر انہوں نے انکار کردیا ۔ اور طنز کیا کہ کیا خالدہ ضیا 101 ٹکا میں خریدے کنٹونمنٹ کو چھوڑنے کا اعلان کریں گی ۔
شیخ حسینہ نے دعویٰ کیا کہ گنابھابن کو وزیر اعظم کی رہائش گاہ کا سٹیٹس حاصل نہیں اگر اس کو وزیر اعظم کی رہائش گاہ کا سٹیٹس حاصل ہوتا تو خالدہ ضیا اس گھر میں رہتیں لیکن انہوں نے اسے استعمال نہیں کیا ۔
گنا بھابن نگلہ دیش کی آزادی کے بعد ملک کے بانی و وزیر اعظم شیخ مجیب کےدور میں تعمیر کیا گیا وہ اس گھر میں رہائش پذیر نہیں تھے ان کا گھر دھان منڈی میں تھا جسے بعد میں بنگ بندھو میمورئیل میوزیم بنا دیا گیا ۔گنا بھابن کو شیخ مجیب سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ ان کے قتل کے بعد یہ گھر خالی رہا ۔ 1985 میں اس گھر کو سرکاری ریسٹ ہاوس کا درجہ دے دیا گیا۔ اس گھر کو غیر ملکی سربراہان استعمال کرتے تھے ۔ انڈیا کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی بھی رہے۔
1996 میں شیخ حسینہ نے دوبارہ وزیر اعظم بنتے ہی گنا بھابن میں رہنا شروع کردیا جس کےبعد اسے وزیر عظم ہاوس کا سٹیٹس مل گیا ۔ 2009 میں عوامی لیگ کے دوبارہ اقتدار میں آئی تو پھر سے یہاں رونقیں آباد ہوگئیں ۔
5 اگست 2024 کو طلبہ احتجاج کے باعث وہ گنا بھابن کو چھوڑ کر انڈیا چلی گئیں ۔ان کے جانے کےبعد بنگلہ دیش کے نگران وزیراعظم پروفیسر یونس نے اسے جولائی میموریئل میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ خالدہ ضیا کی جماعت بی این پی کے سربراہ نے کہا ہے کہ گنا بھابن میں ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا جو ان مظاہروں میں زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں