تحریر،عامر رضا خان :آپ نے کبھی پٹھان سے قالین یا الیکٹرانک کی کوئی چیز خریدی ہے؟ اگر نہیں تو یہ تجربہ ضرور کریں اس سے آپ کو پٹھان کاروباری دماغ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کسی پٹھان بھائی کو روکیں اور پوچھیں قالین کتنے کا ہے وہ آپ بتائے گا 5 لاکھ اور اس کے ساتھ ہی وہ قالین کی تعریف شروع کردے گا اس کے گُن بتائے گا اسے ایران سے آگے ترکی سے ذراسا پیچھے کسی ملک کی کاریگری بتائے گا جس کے بعد وہ یہ بتائے گا کہ کہ اسے یہ قالین کیسے ملا؟ بھائی لاٹ لایا تھا اس نے اسے تحفے میں دیا اور یہ تحفہ اب اچھے صاحب نظر کا منتظر ہے ، جب وہ رکے تو آپ کہہ دیں نہیں خان صاحب ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں ہم آپ کو 5 ہزار دے سکتا ہے ، پٹھان کا پارہ ایک دم ہائی ہوتا نظر آئے گا وہ بولے گا مارا یہ تو کرایہ بھی نہیں ہے چیز دیکھو تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو خدا قسم ہم اتنے میں کبھی نا دیں آپ الٹی گنتی شروع کریں 5 ہزار ایک سو ، پھر 5 ہزار دو سو اس پر پٹھان جانے کی ایکٹنگ کرے گا، جانے لگے تو آپ ایک سو اور بڑھا دیں وہ رکے گا اور کہے گا نا تمہاری نا ہماری بات، تم اڑھائی لاکھ دو قالین تمہارا، آپ ایک سو مزید بڑھائیں وہ کہے گا تم اچھا انسان لگتا ہے چلو ایک لاکھ میں سودا کرتے ہیں، آپ اس پرمزید سو روپے بڑھائیں تو وہ کہے گا کہ قیامت کو کیا منہ دکھاؤ گے صحیح قیمت لگاؤ ہم بیچے اور جائے جس پر آپ اگر قیمت 6 ہزار بول دیں تو قالین آپ کا ہوا ۔
یہ مجھے سب علی امین گنڈا پور کی تقریر سُن کر یاد آیا جس میں وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ہم وفاق کو الٹی میٹم دیتے ہیں کہ آئی جی اسلام آباد کو ہٹاؤ ، ہمارے ساتھی رہا کرو نہیں تو ہم پھر آئے گا ، یاد کریں پھر آنے والا قصہ کہاں سے شروع ہوا تھا کچھ یاد ہے ، پہلی کال تھی حکومت جعلی مینڈیٹ والوں کی ہے ہم اس حکومت کو نہیں چلنے دیں گے ، ہنگامہ ہوا درختوں کو آگ لگائی گئی ، اڈیالہ سے کال آئی کہ چیف الیکشن کمشنر کو ہٹایا جائے نہیں تو ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ، اس کے بعد کہا گیا فارم 45 کھولیں جائیں ہم اس کو مانتے ہیں فارم 47 کو نہیں (خیر مانتے تو یہ 47 میں بننے والے ملک کو بھی نہیں ) اس کے بعد کہا گیا اچھا ہمیں جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے وہ نا ملی تو جیل توڑ کر خان کو آزاد کرنے کا کہا گیا ، جتھہ لایا گیا اسلام آباد پر حملہ آور ہوا گیا، افغان شہریوں کے اس جتھے میں کہیں کہیں معصوم پاکستانی بھی بہکاوے یا معاوضے پر لائے گئے ، پی ٹی آئی کی تمام قیادت اس سارے انتشاری جتھے سے غائب رہی اور کوئی بھی منظر عام پر نا آیا جبکہ اس جتھے کی قیادت کرنے والے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ اس سارے جتھے کو چھوڑ غائب ہوگئے ، کے پی ہاؤس گئے اور پھر وہاں سے 24 گھنٹے روپوش رہنے کے بعد اسمبلی میں نمودار ہوئے لیکن اب قالین والا پٹھان غصے میں نظر آیا سارا غصہ آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی پر نکالا نا حکومت نا اسٹیبلشمنٹ نا رینجرز بس یاد رہا تو آئی جی اسلام آباد جسے دھمکیاں لگائیں جب یہ دھمکیاں کام نا آئیں تو کہہ دیا کہ ہٹایا نا گیا تو ہم پھر اسلام آباد آئیں گے ۔
دوسری جانب حکومت قالین لینے والے پٹھان کی طرح بھاؤ مزید کم کرنے پر اصرار کر رہی ہے کبھی کبھی کچھ نا کچھ قیمت بڑھا بھی دیتی ہے جیسے جلسے کی "ڈنگر منڈی " میں اجازت وغیرہ اور حکومت کو یقین ہے کہ اس الٹی گنتی میں خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور تھانہ ترنول کے ایس ایچ او کی معطلی پر مان جائیں گے ، حکومت اس سارے معاملے کو تحمل سے اپنے حق میں بدلتی جارہی ہے۔ عمران خان کی رہائی کی بات کرنے والے اب ملاقات کے لیے درخواستیں لیے گھوم رہے ہیں ، وفاق پر حملہ آور ہونے کے خواب دیکھنے والے پشاور اسمبلی میں ایک دوسرے کے دست و گریبان ہیں اقبال وزیر اور نیک وزیر ایک پی ٹی آئی دوسرا پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین یعنی حکومت بھی وہی اپوزیشن بھی وہی لیکن دونوں جانب مطالبات کی بھوک ایک دوسرے کا گوشت نوچنے پر مجبور کررہی ہے ۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ جو مطالبہ کر رہے ہیں کبھی مانا نہیں جائے گا، آئی جی اسلام آباد نے اپنی ڈیوٹی مکمل کی ہے اور جو افغان پکرے گئے ہیں، ان سے مزید معلومات بھی مل سکتی ہیں جو مستقبل میں عمران خان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں ،علی امین گنڈا پور اس وقت ڈبل ایجنٹ کا کردار نبھا رہے ہیں، وہ بقول شاعر، رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نا گئی کے مصداق ایک طرف جوشیلا خطاب فرمارہے ہیں، دوسری جانب اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کے لیے مقتدر حلقوں کے اشاروں پر زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ رہے ،ہم دعا گو ہیں کہ آج یا کل اللہ پاک پی ٹی آئی کے ہمدردوں کو ڈبل گیمرز کے لائے ہوئے عذاب سے محفوظ رکھیں آمین۔