سٹی42: بی جے پی کو ہریانہ کا الیکشن جیتنے کے لئے چھوٹی ذات کے سیاستدان کو الیکشن سے پہلے وزیر اعلیٰ بنانا پڑا اور اب وہ اس چھوٹی ذات کے سیاستدان نایاب سنگھ سینی کے ساتھ ہی گزارا کرے گی۔
چنڈی گڑھ کے تخت پر بیٹھنے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی اصل چوائس منوہر لال کھٹڑ اپنی مسلسل غلط پالیسیوں اور نریندر مودی کی مرکز میں کسان دشمن اور غریب دشمن سیاست کے سبب خود بھی غیر مقبول ہو گئے تھے اور بی جے پی کو بھی غیر مقبول کروا دیا تھا۔ الیکشن سے 200 دن پہلے بھاجپا نے اپنے فیورٹ لیکن عوام میں غیر مقبول وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹڑ کو وزارت اعلیٰ چھڑوا کر نا اہلی کا انعام دیا اور اسے لوک سبھا میں لے جا کر مرکزی وزیر بنوا دیا۔ ہریانہ میں کمزور ذات کے نایاب سنگھ سینی کو وزیر اعلیٰ بنا کر ان سے عوام کی اشک شوئی کے کام کروائے اور اعلان کیا کہ الیکشن جیت گئے تو سینی ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے لیکن اندر ہی اندر یہ کھیل بھی چل رہا تھا کہ سینی تو چھوٹی ذات کا ہے، اسے جاٹ اور "بڑی ذات" کے لوگ قبول نہیں کریں گے اس لئے اسے ہتا دیا جائے۔ لیکن الیکشن میں کانگرس اتنی طاقت کے ساتھ ابھر کر ہریانہ کے افق پر جگمگائی کہ اب بھارتیہ جنتا پارٹی میں کسی کو یہ جرات نہیں ہو رہی کہ کمزور ذات کے نایاب سنگھ سینی کو ہٹا کر کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنانے کا رسک لیں کیونکہ 90 ارکان کی اسمبلی میں بھاجپا کی حکومت محض چار ارکان کے پیچھے ہٹ جانے سے گر جائے گی۔ اس لئے اب کہا جا رہا ہے کہ ہریانہ کے موجودہ وزیر اعلیٰ نایاب سنگھ سینی کو اعلیٰ عہدے پر ایک اور میعاد ملے گی، بی جے پی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ ان کی مبینہ غیر موثریت کے درمیان اس موضوع پر قیاس آرائیوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ بی جے پی ریاست میں تاریخی تیسری بار حکومت بنانے کے لئے چھوٹی ذات کے سیاستدان کے ساتھ گزارا کرے گی۔
بھارت میں تجزیہ نگاروں کی خاصی تعداد اس بات کو مان رہی ہے کہ پسماندہ ذات سے تعلق رکھنے والے نایاب سنگھ سینی کو وزیر اعلیٰ بنانا ایک اسٹریٹجک پری پول ردوبدل تھا جسے بی جے پی ان ریاستوں میں کرتی ہے جہاں حکومت مخالف ہوا چلتی نظر آتی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹڑ بہرحال خوش ہیں کہ انہین ہار کی ہزیمت سے بچ کر مرکز میں وزیر بننے کا موقع مل گیا۔ سینی وزیر اعلیٰ بن کر اونچی ذات کے ہندو مائینڈ سیٹ کو کب تک مطمئین رکھ سکیں گے یہ ایک سوال ہے۔