سٹی42: قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کے طور پر اپنا کردار ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے. قطر کے حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کی واپسی اور جنگ بندی کے لئے ثالثی کی ایک سالہ کوششوں سے دستبرداری کی اطلاعات امریکہ میں 5 نومبر کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد سامنے آ رہی ہیں جنہوں نے جیتنے کے بعد ایک بار پھر اعلان کیا کہ وہ جنگیں ( اسرائیل حماس حزب اللہ ایران جنگ اور یوکرائن روس جنگ) بند کروائیں گے۔
سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ قطر نے ثالثی بند کرنے کا فیصلہ اکتوبر کے آخر میں کیا تھا اور تمام فریقوں کو تبھی اس سے آگاہ کر دیا تھا۔
اسرائیل کے اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے ثالثی کے عمل سے باخبر ایک ذریعہ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قطر کی ھکومت نے حماس کے عہدیداروں کو گزشتہ ماہ کے آخر میں ملک چھوڑنے کو کہہ دیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ حماس کے عہدیداروں کو قطرسے جانے کے لئے کہنے کا یہ فیصلہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ کی درخواست کی وجہ سے کیا گیا تھا۔
قطر کی ثالثی کے عمل سے علیحدگی کے فیصلہ کے متعلق جاننے والے ایک سفارتکار نے جن کا تعلق امریکہ سے نہیں - ٹائمز آف اسرائیل کو بتاتیا کہ قطر نے یہ فیصلہ خود کیا ہے، اس بات کا تعین کرتے ہوئے کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی جاری نہیں رکھ سکتا کیونکہ قطر کی دانست میں کوئی بھی فریق نیک نیتی سے بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سفارت کار کا کہنا ہے کہ اور اگر قطر مزید ثالثی نہیں کرتا ہے تو قطر کا حماس کو ملک میں اپنے دفاتر برقرار رکھنے کی اجازت دینے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔
سفارت کار نے افسوس کا اظہار کیا کہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مذاکرات اسرائیل اور حماس دونوں کے لیے اب "سیاست" اور "انتخابات کے بارے میں" زیادہ "متعلق" ہو گئے ہیں۔ دونوں فریقوں کا یہ رویہ "امن کو محفوظ بنانے کی سنجیدہ کوشش" کے برخلاف ہے۔ سفارت کار کا دعویٰ ہے کہ دونوں فریق ان وعدوں سے پیچھے ہٹ گئے جو انہوں نے مذاکرات کے دوران کیے تھے، اور وہ صرف "سیاسی امیج" (اپنی پبلک کو خاص تاثر دینے) کے مقصد کے لیے ان میں مصروف تھے۔
یواو گیلنٹ کا انکشاف
اس ہفتے کے شروع میں، اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ کو اپنی رائے سے آگاہ کیا تھا کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جنگ کو سیاسی وجوہات کی بنا پر جاری رکھا ہوا ہے، نہ کہ سیکورٹی کی وجہ سے، جوزیر دفاع گیلنٹ کا خیال تھا کہ اس طرز عمل نے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو روکا ہوا ہے۔ (کچھ ہی دن بعد نیتن یاہو نے یواو گیلنٹ کو وزیر دفاع کے عہدہ سے ہی الگ کر دیاتھا۔)
قطر نے اکتوبر کے آخر میں ثالثی سے علیحدگی کا فیصلہ متعلقین کو بتا دیا تھا
سفارت کار کا کہنا ہے کہ ایک بار جب قطر کی جانب سے اپنا ثالثی کا کردار ختم کرنے اور حماس کے عہدیداروں کو ملک سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس نے پہلے دوسرے ثالثوں یعنی امریکا اور مصر کو مطلع کیا اور پھر حماس کو مطلع کیا، سفارت کار کا کہنا ہے کہ یہ نوٹیفکیشن اکتوبر کے آخر میں دیا گیا تھا۔.
سفارت کار نے بتایا کہ حماس کی قیادت کب دوحہ چھوڑے گی، اس کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی گئی، لیکن یہ ایسی چیز نہیں ہے جو راتوں رات ہو جائے۔
سفارت کار نے نوٹ کیا کہ ضروری نہیں کہ قطر کا فیصلہ مستقل ہو اور اگر دونوں فریق نیک نیتی سے مذاکرات کے لیے مخلصانہ آمادگی کا مظاہرہ کریں تو اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
سفارت کار کا کہنا ہے کہ اپریل میں بھی یہی ہوا تھا، جب قطر نے خاموشی سے حماس کو ملک سے نکال دیا۔ اس وقت حماس گروپ کے رہنما ترکی گئے، لیکن انقرہ میں حماس کے ساتھ ایسا کرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہونے کے بعد امریکہ اور اسرائیل نے قطر سے انہیں واپس لانے کے لیے کہا تھا۔
ٹائمز آف اسرائیل نے اس خبر میں اپنی ایک گزشتہ خبر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ دو سرکاری اہلکاروں نے گزشتہ مئی میں دی ٹائمز آف اسرائیل کو حماس عہدیداروں کو قطر سے نکالے جانے کے واقعات کے اس سلسلے کا انکشاف کیا تھا۔
سفارت کار کا قیاس ہے کہ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اگر اب قطر سے کہیں اور جائیں گے تو حماس کے عہدیدار ایک بار پھر ترکی کا رخ کریں گے۔ یہ انقرہ کو ایک مشکل پوزیشن میں ڈال سکتا ہے، حالانکہ بائیڈن انتظامیہ نے کل واضح کیا تھا کہ وہ نہیں چاہتی کہ اس کے اتحادی دہشت گرد گروپ کی میزبانی کریں۔
مذاکرات میں تازہ ترین خرابی کے باوجود حماس کے رہنما قطر میں ہی موجود ہیں جو ان پر مذاکرات کی میز پر واپس آنے پر زور دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دوحہ کی جانب سے ان کے جانے کی ابتدائی ہدایت اب نافذ العمل نہیں ہے، الثانی نے اس ہفتے کہا تھا کہ رفح میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔