سٹی42: کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کا جسٹس ڈیپارٹمنٹ امریکی عوام کے صدر منتخب کئے ہوئے ملزم ڈونلڈ ٹرمپ پر بنے ہوئے مقدمے ختم کرنے پر غور کر رہا ہے۔ ایسا غالباً رائے عامہ کے احترام کی غرض سے کیا جا رہا ہے تاہم کیا ڈونلڈ ٹرمپ خود پر مقدمات بنانے والے سرکاری اہلکاروں کو ان کی قانون پسندی کے جرم پر معاف کر دیں گے، اس سوال کاابتدائی جواب ڈونلڈ ٹرمپ کے اچانک بہت قریب آ جانے والے بلینئیر ایلون مسک نے دے ڈالا ہے، مسک نے کہا ہے۔ " ایسا نہیں ہوسکتا کہ جیک سمتھ کو ’سزا نہ دی جائے۔‘
اب یہ جیک سمتھ کون ہیں اور ان کا ایسا کون سا جرم ہے جسے ڈی ٹرمپ معاف کر ہی نہیں سکتے۔ جیل سمتھ کا مختصر تعارف تو یہ ہے کہ وہ امریکہ کے محکمہ انصاف کے اہل کار ہیں جو سپیشل کونسل کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ اور جیک سمتھ کا "جرم" یہ ہے کہ گذشتہ سال انھوں نے ٹرمپ کے خلاف خفیہ دستاویزات کی برآمدگی اور 2020 کے الیکشن کے بعد توڑ پھوڑ سے متعلق دو مقدمات بنائے تھے۔
امریکی محکمۂ انصاف کی یہ عرصہ دراز سے پالیسی ہے کہ "صدر کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جاتی"، لیکن امریکہ کے محکمہ انصاف کی روایات میں ایسا کچھ نہیں کہ کوئی صدر بھی اپنے خلاف قانونی مقدمات بنانے والے اہلکاروں سے انتقام نہیں لے گا، یہ "انتقام" ماضی میں تو کسی صدر نے کسی اہلکار سے نہیں لیا لیکن ماضی میں ڈی ٹرمپ جیسا کوئی منتقم مزاج صدر کے عہدہ تک پہنچا ہی نہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ جب ٹرمپ جنوری کی 20 تاریخ کو صدر کے اختیارات سنبھالیں گے تو وفاقی سطح پر ان کے خلاف بنائے گئے مقدمات میں ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی۔ لیکن اس مرتبہ امریکہ زیادہ پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہے، امریکہ کے ادارے تو عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے صدر کے خلاف جائز اور منصفانہ مقدمات پر کارروائی بند کر دیں گےلیکن وہ صدر خود پر مقدمات بنانے والے اہلکاروں کو معاف کرنے کا کوئی یارادہ نہیں رکھتا، یہ الگ بات کہ وہ کسی اہلکار کے خلاف کوئی قانونی کارروائی بہرحال نہیں کر سکے گااور امریکہ کا قانون اور ادارے اہلکار کا تحفظ ہی کریں گے لیکن ٹرمپ قانون کو کیا سمجھتا ہے یہ اس پر بنے مقدمات سے ہی خوب عیاں ہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اقتدار سنبھالنے پر جیک سمتھ کو ’دو سکینڈ میں برطرف کر دیں گے۔‘
امریکہ کے سی بی ایس نیوز کے مطابق "دو ذرائع" کا کہنا ہے کہ موجودہ صدر کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے اور اقتدار کی پُرامن منتقلی کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جنوری میں ٹرمپ کی تقریب حلف برداری سے قبل محکمۂ انصاف چاہے گا کہ اس کے ٹرمپ کے ساتھ بہتر تعلقات ہوں۔
جیک سمتھ کا کیا بنے گا جنہیں ٹرمپ ’دو سیکنڈ میں‘ ہٹانا چاہتے ہیں
نومبر 2022 کے دوران جیک سمتھ کو اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے سپیشل کونسل تعینات کیا تھا۔
اس کے بعد سمتھ نے ٹرمپ کے خلاف دو مقدمات بنائے تھے۔ پہلے کیس میں ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے 6 جنوری 2021 کو ایک مشتعل ہجوم کو بھڑکایا جس نے پھر کیپیٹل ہِل پر دھاوا بولا۔
دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ پر خفیہ دستاویزات رکھی ہوئی تھیں جنھیں ایف بی آئی نے برآمد کیا اور انیف بی آئی کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
خفیہ دستاویزات کا کیس اپیل کورٹ میں سست روی کا شکار ہے کیونکہ ایک امریکی جج نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ محکمۂ انصاف نے جیک سمتھ کو درست انداز میں تعینات نہیں کیا۔ سمتھ نے اپنے تقرر کو غلط قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی جو زیر التوا ہے۔
انتخابات میں مداخلت کے کیس پر کارروائی بھی اس وقت رُک گئی تھی جب امریکی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ صدر کو اپنے کسی بھی سرکاری اقدام کے سلسلے میں قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہوتی ہے۔
جیک سمتھ کی ٹیم نے اگست میں اس کیس میں تبدیلی کی اور یہ الزام لگایا کہ ٹرمپ نے بطور سیاسی امیدوار یہ حالات پیدا کیے تھے۔ اس کیس میں فریقین اپنے دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا الزامات جائز ہیں۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم پر 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ خرچ کرنے والے ارب پتی ایلون مسک نے یہ بے ہودہ الزام تھوپا ہے کہ ’جیک سمتھ نے انصاف کے نظام کا استحصال کیا اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ انھیں سزا نہ دی جائے۔‘
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ بارہا کہا کہ وہ سمتھ کی طرف سے شروع کیے گئے قانونی محاذ کو روکیں گے اور صدر بائیڈن سمیت دوسرے ناقدین کے خلاف کارروائی کریں گے۔
انھوں نے بغیر شواہد دیے یہ بارہا یہ عذر پیش کیا کہ ان کے خلاف مقدمے دراصل سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے تھے۔ ٹرمپ نے یہاں تک کہا تھا کہ وہ جیک سمتھ کو نہ صرف عہدے سے ہٹائیں گے بلکہ انھیں ’ڈی پورٹ‘ کر دیں گے۔
مقدمات ختم کرنے کی بجائے خود کو بے گناہ ثابر کرنے کا راستہ؟
ادارے تو چاہ رہے ہیں کہ ٹرمپ کو ووٹ دینے والوں کو کسی آزمائش میں ڈالے بغیر ٹڑمپ کو صدر بن کر کام کرنے کا موقع دیا جائے لیکن اس سے شاید ٹرمپ کی زخمی انا کو سکون نہیں مل رہا، ان کے ایک مشیر نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ نومنتخب صدر نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی میں خصوصی دلچسپی لیں گے اور یہ ثابت کرنا چاہیں گے کہ وہ ’بے قصور‘ تھے۔ مشیر کے مطابق اس چیز کے امکان بہت کم ہیں کہ ٹرمپ کے زیرِ انتظام محکمۂ انصاف سمتھ کے دفتر سے وہی پراسیکیوٹر بھرتی کرے گا جنھوں نے نومنتخب صدر کے خلاف تحقیقات کی تھیں۔
ٹرمپ ایک مشیر مائیک ڈیوس کو امید ہے کہ جیک سمتھ کے خلاف مختلف جگہوں پر تحقیقات ہوں گی، جیسے محکمۂ انصاف کے اندر اور دونوں ایوانوں میں عدلیہ سے متعلق کمیٹیوں میں۔
صدر نے اہلکاروں سے انتقام لیا تو کیا ہو گا؟
بادی النظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اگر ایلون مسک کے دعوے کے مطابق صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے سرکاری وکیل جیک سمتھ کو "سزا" دینے کی ھماقت کی تو مدمے ختم ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوں گے اور جیک سمتھ تو بہرحال اپنا دفاع کریں گے ہی، ان کے ساتھ امریکہ کے اداروں اور پھر انصاف پسند عوام کو بھی شریک ہونا پڑے گا اور صدر کے خلاف مقدمات کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی سورت میں زندہ رہیں گے۔
صرف جیک سمتھ ہی نہیں نیویارک میں ڈونلڈ ٹرمپ کو پورنو سٹار کو پیسہ دے کر خاموش رکھنے کے بعد ادا کی گئی رقم کو ٹیکس دستاویزات میں چھپانے کے مقدمہ میں ٹرمپ کو شرمندگی کے گڑھے میں دھکیلنے والی خاتون اٹارنی جنرل کو بھی ٹرمپ کے انتْام کا نشانہ بننا پڑ سکتا ہے لیکن انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ تیار ہیں، مقابلہ کریں گی۔
ٹرمپ کے خلاف مقدمات کا کیا ہوگا؟
جیسے ہی ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھیں گے، ان کی اکثر قانونی پریشانیاں ختم ہوجائیں گی یا کم از کم آئندہ چار سال کے لئے ٹل جائیں گی یعنی منجمد ہو جائیں گی۔
ٹرمپ کو فی الحال چار مقدمات کا سامنا ہے:
1. نیو یارک میں ہش منی کیس
ڈی ٹرمپ پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کو رشوت دی تھی۔
سٹورمی ڈینیئلز کا دعویٰ ہے کہ 2016 میں جب ٹرمپ صدر کے امیدوار تھے تو انھوں نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر اس شرط پر ادا کیے کہ وہ ٹرمپ سے تعلق کو ظاہر نہیں کریں گی۔
نیو یارک میں ایک عدالت میں اس دیوانی مقدمے میں جیوری نے انھیں تمام 34 الزامات میں قصوروار ٹھہرایا تھا۔
جج نے انھیں 26 نومبر کو سزا سنانا ہے تاہم قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ ٹرمپ کو پہلی بار اس نوعیت کے جرائم میں قصوروار پایا گیا اور وہ وڑھا آدمی ہے، اور درحقیقت اس لئے کہ امریکہ کے عوام نے اسے صدر منتخب کر لیا ہے، اب اس بات کے کم امکان ہیں کہ انھیں جیل جانا پڑے، لیکن جج بہرحال جج ہے، وہ سزا سنا بھی سکتا ہے اور کوئی قانون بشمول "صدر کیلئے استثنیٰ" کا قانون اور روایت جج کو 26 نومبر کو سزا سنانے سے روک نہین سکتے کیونکہ صدر تو ٹرمپ 20 جنوری کو ہی بنیں گے۔ اس سے پہلے انہیں سزا نہ دینا رعایت ہو گا لیکن رعایت تو اسی سے کی جا سکے گی جو خود انتْام لینے پر کمر بستہ نہ ہو۔
ٹرمپ کے وکیل اس کیس میں اپیل دائر کر سکتے ہیں اور وہ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ جیل جانے سے ان کی سرکاری ذمہ داریوں کی دائیگی میں خلل آئے گا، لہذا وہ اپیل پر کارروائی تک آزاد رہیں گے۔اس کے بعد "اپیل کا عمل" کئی برسوں تک چل سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کیس پر کارروائی کو چار سال تک کے لئے منجمد کر دیا جائے۔
2. کیپیٹل ہل پر حملے کا کیس
2020 کے الیکشن میں شکست کے بعد ٹرمپ نے یہ سنگین حرکت کی تھی کہ انھوں نے مشتعل ہجوم کو کیپیٹل ہِل پر دھاوا بولنے کے لیے اکسایا۔ بعد میں اس واقعہ پر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ بن گیا۔ ٹرمپ کا موقف ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔ اس خاص مقدمہ میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ اگر ٹرمپ نے پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کے لئے اکسایا بھی تھا تو تب وہ صدر تھے، بطور صدر ٹرمپ کو استثنیٰ حاصل تھا۔ اس کیس مین یہ موڑ آنے کے بعد سرکاری وکل جیک سمتھ کی ٹیم نے کیس میں اپنی پوزیشن میں تبدیلی کی اور موقف اپنایا کہ ٹرمپ نے ہجوم کو اکسانے کی حرکت الیکشن ہارنے کے بعد بیس جنوری کو انتقال اقتدار کا انتظار کرتے صدر کی حیثیت سے نہیں بلکہ الیکشن ہارے ہوئے امیدوار کی حیثیت سے کی تھی۔
اب مبصرین یہ امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہ کیس دب جائے گا۔
سابق وفاقی پراسیکیوٹر نعیمہ رحمانی کے مطابق ٹرمپ کو درپیش اس طرح کے قانونی چیلنجز ختم ہو سکتے ہیں۔ ’موجودہ صدر کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی لہذا ڈی سی کی ضلعی عدالت میں قائم الیکشن فراڈ کیس مسترد ہوسکتا ہے۔‘
نعیمہ رحمانی کا کہنا ہے کہ اگر جیک سمتھ نے (کارروائی روکنے سے) انکار کیا تو ٹرمپ انھیں ہٹا دیں گے، جس کا وہ پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں۔
3. خفیہ دستاویزات کا کیس
ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ پر خفیہ دستاویزات رکھی ہوئی تھیں اور انھیں برآمد کیے جانے پر رکاوٹ ڈالی گئی۔
جج نے جولائی میں الزامات مسترد کیے تھے- ٹرمپ کا دستاویزات کی مس ہینڈلنگ میں ملوث ہونا مسترد نہیں ہوا تھا بلکہ جج نے یہ قرار دے دیا تھا کہ سپیشل کونسل جیک سمتھ کی تعیناتی غیر قانونی تھی۔
جیک سمتھ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے قبل اب اس کیس کو بھی ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
نعیمہ رحمانی کا کہنا ہے کہ خفیہ دستاویزات کے مقدمے کا بھی وہی انجام ہو گا جو الیکشن فراڈ کیس کا ہوا
4. جارجیا الیکشن کیس
جارجیا میں بھی 2020 کے الیکشن کے نتائج کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ قائم ہوا تھا۔
اس کیس کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے ڈسٹرکٹ اٹارنی فانی ویلس کو نااہل قرار دیے جانے کی کوششیں ہوئیں اور وہ بھی اس بے ہودہ وجہ کے ساتھ کہ ان کے اپنی بھرتی کی گئی وکیل کے ساتھ تعلقات تھے۔
اپیلز کورٹ میں یہ معاملہ زیر التوا ہے کہ آیا ویلس کو اس کیس پر کام کرنے دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
ٹرمپ کے صدر بننے پر اس کیس میں مزید (لامتناہی) تاخیر بھی ہوسکتی ہے اور اسے مسترد بھی کیا جاسکتا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق جب تک ٹرمپ صدر رہیں گے، اس پر کارروائی رُک سکتی ہے۔ ٹرمپ کے وکیل سٹیو سیڈو کے مطابق جب تک ٹرمپ اپنی مدت پوری نہیں کرتے اس پر کارروائی نہیں ہوسکتی۔
کیا ٹرمپ صدر بن کر خود کو معاف کر سکتے ہیں؟
تکنیکی اعتبار سے جی ہاں! ماضی میں کبھی کسی امریکی صدر نے خود کو معاف کرنے یا مقدمات سے استثنیٰ دینے کی احمقانہ حرکت نہیں کی لیکن ماضی کے کسی بھی صدر کا نام ٹرمپ نہیں تھا۔ ڈی ٹرمپ سے یہ عین توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ صدر بننے کے بعد خود کو معاف کر کے قانونی کارروائی کا ہمیشہ کیلئے تیہ پانچہ کر دیں لیکن صدر کی دی ہوئی معافی صرف وفاقی کیسز پر لاگو ہوتی ہے۔
نیویارک کا کیس؛ کیا 26 نومبر کو تاریخ کا نیا باب لکھا جا سکتا ہے؟
ٹرمپ کو نیویارک کی جیوری نے 34 الزامات میں قصوروار ٹھہرایا تھا لہذا اس کیس پر معافی لاگو نہیں ہو گی۔ اس کیس کی قانونی پروسیڈنگز تمام کی تمام اس دوران مکمل ہوئیں جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر نہیں تھے اور فیصلہ سنانے کی تاریخ بھی ان کے صدر بننے سے پہلے کی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ نیویارک کی عدالت مین امریکہ کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا ایک اور باب لکھا جائے اور پریذیڈنٹ الیکٹ کو پریذیڈنٹ کنوِکٹ بننا پر جائے۔
مین ہیٹن میں 34 سنگین الزامات پر ڈونلڈ ٹرمپ کی قسمت کا فیصلہ مین ہٹن کے شہریوں مین سے منتخب کئے گئے 12 جیوری ارکان کے ایک چھوٹے سے پینل نے کیا جنہیں مقدمے میں پیش کیے گئے شواہد کو درست طریقے سے جانچنے کے لیے اپنی ذاتی رائے کو ایک طرف رکھنے کا کام سونپا گیا۔
سی بی ایس نیوز کے مطابق، یقیناً، ٹرمپ پر مشتمل ایک فوجداری مقدمے میں 12 غیر جانبدار ججوں کو تلاش کرنا غیر معمولی طور پر مشکل کام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے 500 سے زیادہ نیو یارکرز کو پیر، 15 اپریل کو جیوری ڈیوٹی کے لیے رپورٹ کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔