جنگیں بند کیسے کروائیں گے، ٹرمپ کے مشیر نے معمہ حل کر دیا

9 Nov, 2024 | 08:09 PM

Waseem Azmet

سٹی42: امریکیوں نے ڈی ٹرمپ کو ووٹ کیا سوچ کر دیئے تھے، سیاست کے سٹوڈنٹس کو یہ بات شاید مستقبل قریب میں یا بعید میں بھی سمجھ نہ آ سکے تاہم ڈی ٹرمپ کی جنگیں بند کرنے کی "حکمتِ عملی" ان کے وائٹ ہاؤس پہنچنے سے ستر دن پہلے ہی طشت از بام ہو  گئی اور اس پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک سینئیر ایڈوائزر نے انکشاف کیا ہے  کہ وہ  یوکرائن کے مقبوضہ علاقے واپس لینے کے جھنجٹ میں نہیں پڑیں گے، بس محض "امن کے حصول کے لئے"   امریکہ اپنے اتحادی یوکرائن کو مجبور کرے گا کہ وہ اپنے مقبوضہ علاقوں اور دیگر نقصانات کو فراموش کر کے محض امن کے لئے جنگ بندی کر لے۔ 

ریپبلکن پارٹی کے حکمت عملی ساز برائن لانزا نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ’امن کے لیے حقیقت پسندانہ وژن‘ کے لیے کہے گی۔

"اور اگر صدر زیلنسکی میز پر آتے ہیں اور کہتے ہیں، ٹھیک ہے ہم تب ہی امن رکھ سکتے ہیں جب ہمارے پاس کریمیا ہو، وہ ہمیں دکھاتا ہے کہ وہ سنجیدہ نہیں ہیں۔"

روس نے 2014 میں جزیرہ نما کریمیا کا الحاق کر لیا تھا۔ آٹھ سال بعد، اس نے یوکرین پر مکمل حملہ کیا اور ملک کے مشرق میں علاقے پر قبضہ کر لیا۔

امریکی انتخابات جیتنے کے بعد سے ٹرمپ پہلے ہی زیلنسکی سے بات کر چکے ہیں - جوڑی نے بدھ کو ایک فون کال کی جس میں ارب پتی ایلون مسک نے بھی حصہ لیا۔

Caption  یوکرائن کے صدر زیلینسکی نے گزشتہ سال امریکہ وزٹ کیا تو وہ سابق صدر ٹرمپ سے بھی ملے تھے، اب صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ نے اپنے "جنگیں بند" کرنے کے انتخابی شعبدے پر عمل کرنے کی غرض سے  صدر زیلنسکی کے ساتھ ابتدائی رابطہ کیا تو نصف گھنٹہ گپ شپ پر لگا دیا اور جنگ کے متعلق کوئی براہ راست تجویز نہیں دی۔ 


یوکرین کے صدارتی دفتر کے ایک ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ 'مسک کے ساتھ یہ ایک مختصر بات چیت تھی، لیکن ٹرمپ کے ساتھ  صدر زیلنسکی کی طویل گفتگو  ہوئی، یہ تقریباً آدھا گھنٹہ جاری رہی'۔

صدر زیلنسکی کے قریبی ذریعہ نے یہ بھی بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ صدر زیلنسکی کی نصف گھنٹے کی فون کال " واقعی بہت اہم چیزوں کے بارے میں بات کرنے کے لئے بات چیت نہیں تھی، لیکن مجموعی طور پر یہ بہت گرم اور خوشگوار رابطہ تھا."

ٹرمپ نے اپنی الیکشن کیمپین میں اور الیکشن جیتنے کے بعد مستقل طور پر کہا ہے کہ ان کی ترجیح جنگ کا خاتمہ اور امریکی وسائل کی نکاسی کو روکنا ہے۔ ٹرمپ کی اس بات کو امریکی ووٹروں نے غالباً امریکہ کے بھاری اخراجات روکنے کے معنوں میں دیکھا ہے اور غالباً اسی سبب سے اسے سراہا ہے لیکن اصل سوال جنگ میں پھنسے امریکہ کے دو اتحادیوں یوکرائن اور اسرائیل کے لئے ہے کہ انہیں امریکہ کے دباؤ پر جنگ روکنا پڑی تو ان کی قوموں کو اس کی کیا قیمت دینا پرے گی اور بدلے میں ان کو کیا ملے گا؛ یوکرائن کے کیس میں صورتحال زیادہ واضح ہے کہ یوکرائن حالیہ جنگ مین اپنے وسیع علاقوں پر روس کا قبضہ کروا چکا ہے، ایک بڑے علاقے کو روس کی سرپرستی مین مقامی آبادی کے ایک حصہ نے یوکرائن سے الگ / آزاد ڈیکلئیر کر دیا ہے جبکہ کریمیا جس کا حوالہ امریکہ کے ڈھائی ماہ بعد بننے والے صدر کے مشیر نے دیا، وہ 2014 سے یوکرائن کے کنٹرول سے نکل چکا ہے۔

اب یوکرائن کے لئے اہم سوال کریمیا نہیں بلکہ یوکرائن کے وہ تمام علاقے ہیں جو جنگ کے آغاز سے پہلے یوکرائن کا لجیٹیمیٹ حصہ تھے؛ کیا جنگ بند ہونے پر وہ تمام علاقے یوکرائن کو واپس ملیں گے، کیا ڈی ٹرمپ کے پاس کوئی ایسا لیور موجود ہے جو روس کے طاقتور اور جنگ میں سب کچھ جیت چکے صدر پیوٹن کو جنگ بند کرنے کے ساتھ اپنے قبضہ کئے ہوئے علاقوں کے ساتھ یوکرائن کے وہ حصے بھی واپس کرنے پر آمادہ کر سکے جو روسی سرپرستی میں "آزادی" حاصل کر چکے ہیں۔ 

اس تناظر میں ڈی ٹرمپ کے مشیر  برائن لانزا نے بی بی سی کے سامنے لب کھول کر امریکہ کے اندر  پینٹاگون سے لے کر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک اور وائٹ ہاؤس تک تشویش کی لہر دوڑائی تو دوسری طرف  روس کی  یوکرائن کے بعد پیش قدمی کے خوف میں جکڑے یورپ کے دارالحکومتوں میں بھی جھرجھری کی لہر دوڑا دی ہے۔

امریکہ میں ٹرمپ کے ڈیموکریٹ مخالفین ن کہتے ہیں کہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے  ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ ڈیموکریٹس کہتے ہیں کہ جنگ کے لیے ٹرمپ کا نقطہ نظر یوکرین کے غیر مشروط  ہتھیار ڈال دینے کی تجویز جیسا ہے اور یہ پورے یورپ کو خطرے میں ڈال دے گا۔

پچھلے مہینے، زیلنسکی نے یوکرین کی پارلیمنٹ میں "فتح کا منصوبہ" پیش کیا تھا جس میں یوکرین کے علاقوں اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ کرنے واضح  انکار شامل تھا۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے بارہا کہا کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ "ایک دن میں" ختم کر سکتے ہیں، لیکن انہوں نے اس کرشماتی دعوے کی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ مئی میں ان کے دو سابق قومی سلامتی کے سربراہوں کی طرف سے لکھے گئے ایک مقالے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کو  یوکرائن کیلئے ہتھیاروں کی سپلائی جاری رکھنی چاہیے، لیکن اس ہتھیاروں کی سپلائی کو   یوکرائن کے روس کے ساتھ  "امن مذاکرات" میں شامل ہونے کی حمایت سے مشروط کرنا چاہیے۔

ان مشیروں کا مبہم نکتہ نظر یہ تھا  کہ یوکرین کو اپنے تمام علاقے روسی قبضے سے واپس لینے کی امیدیں ترک نہیں کرنی چاہئیں، لیکن اسے موجودہ محاذ کی بنیاد پر بات چیت کرنی چاہیے۔

اب ٹرمپ کے مشیر لانزا نے یوکرائن روس جنگ بندی کی بات کی ہے تو انہوں نے  مشرقی یوکرین کے علاقوں کا ذکر نہیں کیا، لیکن انہوں نے کہا کہ روس سے(دس سال پہلے کنٹرول سے نکل چکے) کریمیا کو دوبارہ حاصل کرنا غیر حقیقی ہے اور "امریکہ کا مقصد نہیں" ہے۔

انہوں نے بی بی سی ورلڈ سروس کے ویک اینڈ پروگرام میں بتایا کہ "جب زیلنسکی کہتا ہے کہ ہم صرف اس وقت لڑائی کو روکیں گے، تب ہی امن ہو گا جب کریمیا واپس آ جائے گا، ہمیں صدر زیلنسکی کے لیے خبر ملی ہے: کریمیا ختم ہو گیا ہے۔"

"اور اگر کریمیا کو واپس حاصل کرنا  آپ کی ترجیح ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ امریکی فوجی کریمیا کو واپس حاصل کرنے کے لیے لڑیں تو  آپ کو یہ کام خود اپنے بل بوتے پر کرنا پڑے گا۔"

ٹرمپ کے مشیرلانزا نے کہا کہ وہ یوکرین کے لوگوں کے لیے  "بے پناہ احترام " رکھتے ہیں، اور انھیں شیر دل سمجھتے ہیں لیکن  امریکہ کی ترجیح "امن اور خونریزی کو روکنا" ہے۔

ٹرمپ کے مشیر نے مزید انکشاف کیا کہ یوکرائن کو "حقیقت پسندانہ ویژن" اپنانے کے لئے کہنے جا رہے ہیں، اور یہ "حقیقت پسندانہ ویژن" دراصل وہی ہے کہ یوکرائن روس کی شرائط پر سمجھوتہ کر لے۔  لانزا کے الفاظ میں،  "ہم یوکرین سے کیا کہنے جا رہے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ آپ کیا دیکھتے ہیں؟ آپ امن کے لیے ایک حقیقت پسندانہ وژن کے طور پر کیا دیکھتے ہیں۔ یہ جیتنے کا وژن نہیں ہے، بلکہ یہ امن کے لیے ایک وژن ہے۔ اور آئیے ایماندارانہ گفتگو شروع کریں۔ "
اس ہفتے کے شروع میں، پیوٹن نے ٹرمپ کو  انتخابی کامیابی پر رسمی مبارکباد دی تو کہا کہ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ وہ یوکرین میں جنگ کو ختم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں "کم از کم توجہ کا مستحق ہے"۔

اب  لانزا نے فروری 2022 میں روس کے حملے کے بعد سے بائیڈن-ہیرس انتظامیہ اور یورپی ممالک کی جانب سے یوکرین کو دی جانے والی حمایت کے اپنی دانست میں کم ہونے  پر بھی تنقید کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یورپی ممالک اور صدر بائیڈن نے شروع ہی میں یوکرین کو یہ جنگ جیتنے کی صلاحیت اور ہتھیار نہیں دیے اور وہ یوکرین کے جیتنے کے لیے پابندیاں ہٹانے میں ناکام رہے۔

اس سال کے شروع میں، امریکی ایوان نمائندگان نے روس کے حملے سے نمٹنے میں مدد کے لیے یوکرین کے لیے فوجی امداد کے لئے 61 ارب ڈالر    کی منظوری دی تھی۔

کیل انسٹی ٹیوٹ فار دی ورلڈ اکانومی کے مطابق، امریکہ یوکرین کو سب سے بڑا ہتھیار فراہم کرنے والا ملک رہا ہے - فروری 2022 اور جون 2024 کے آخر کے درمیان، اس نے 55.5  ارب ڈالر کے ہتھیار اور سازوسامان فراہم کیے۔ 

مزیدخبریں