(سٹی 42) شاعرمشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے 141واں یوم پیدائش کے موقع پر مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پر وقار تقریب ہوئی، مصور پاکستان کو پاک بحریہ اور پاک رینجرز کے چاق وچوبند دستے نے سلامی دی، مزار اقبال پر پاک نیوی کے دستے نے چارج سنبھال لیا۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
لاہور سمیت ملک بھر میں مفکر پاکستان علامہ اقبال کا یوم پیدائش آج ملی جوش وجذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے، اسی سلسلے میں مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب ہوئی، مصور پاکستان کو پاک بحریہ اور پاک رینجرز کے چاق وچوبند دستے نے سلامی دی، مزار اقبال پر پاک نیوی کے دستے نے چارج سنبھال لیا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی سٹیشن کمانڈر نیوی کموڈور نعمت اللہ تھے۔دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب، لارڈ میئر لاہور، ڈی جی رینجرز پنجاب بھی یوم اقبال پر حاضری دینے مزار پر پہنچے ، انہوں نے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے نوجوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
علامہ محمداقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کیا۔ کچھ عرصہ درس و تدریس کے بعد مزید تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔ انگلیڈ سےواپسی پر وکالت بھی کی مگر پھر زیادہ وقت شعر و شاعری کو دینے لگے۔ انجمن حمایت اسلام کے پلیٹ فارم سے نہ صرف شاعری کی بلکہ فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ کی شروع کی شاعری میں وطینت اک عنصر نمایاں تھا مگر تھوڑےعرصے بعد آپ پرعیاں ہوگیا کہ مسلمانان ہند کےمستقبل کے لیے علیحدہ وطن ضروری ہے۔
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں تیری بے نیازی کا ہے
1926 میں علامہ اقبال پنجاب کی مجلس قانون ساز کے ممبرمنتخب ہوئے۔1930 کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے کی صدارت کرتے ہوئے ان کا دیا گیا خطبہ آگے چل کر پاکستان کے مطالبے کی بنیاد بنا۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے کہ بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ اقبال21 اپریل 1938 کو خالق حقیقی سے جاملے مگر ان کی شاعری اور افکار اب بھی زندہ و جاوید ہیں۔