ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایران کے ایٹمی پروگرام پر ٹرمپ کے خط کا خامنی ای نے چوبیس گھنٹے میں حشر کر دیا

City42, Khamena ie vs Donald Trump, Iran America conflict, Iran's nuclear program, IRGC, Pasdarane Inqalab
کیپشن: اایران کے لیڈر خامنہ ای کو خط لکھ کر ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کی دعوت دی، خامنہ ای نے دعوت مسترد کر دی۔ ٹرمپ کے ساتھ یہ پہلی مرتبہ نہین ہوا۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے  ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کو ایران کے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کرنے کی دعوت پر مبنی خط لکھ دیا تو  خامنہ ای نے "غنڈہ گردی کرنے والی حکومتوں" کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کر دیا۔ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای، 27 اکتوبر، 2024
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای، 27 اکتوبر، 2024
اسلامی جمہوریہ  کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے ہفتے کے روز ایک تقریر میں کہا، "ایران غنڈہ گردی کرنے والی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات میں شامل نہیں ہوگا،" 

خامنہ ای کی سرکاری ویب سائٹ نے خامنی ای ک کو یہ کہتے بتایا، "بعض غنڈہ گردی کرنے والی حکومتوں کے مذاکرات پر اصرار کا مقصد مسائل کو حل کرنا نہیں ہے بلکہ غلبہ حاصل کرنا اور اپنے مطالبات مسلط کرنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران یقینی طور پر ان کی توقعات کو قبول نہیں کرے گا۔"

صدر ٹرمپ نے جمعہ کے روز انکشاف کیا  تھا کہ انہوں نے خامنہ ای کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں مذاکرات کی پیشکش کی تھی اور اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو فوجی نتائج کا انتباہ دیا تھا۔ فاکس بزنس نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا، "ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں: فوجی یا معاہدے کے ذریعے۔ میں ایک معاہدہ کرنے کو ترجیح دوں گا۔"

ٹرمپ کی "فوجی نتائج" کی آپشن

آج ایک ہی دن بعد خامنہ ای کے واضح  الفاظ میں دھتکارنے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس اپنے ہی الفاظ میں، "فوجی نتائج " کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں۔ اپنے درجنوں وعدوں، دعووں، خواہشات کو لے کر درجنوں محاذوں پر پہلے ہی محاذ آرائی مین پھنسے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ایران کو "فوجی نتائج"  سے ڈرانے کے لئے  آنے ولے کئی مہینوں تک عملاً کچھ بھی نہیں ہے۔

ایران میں بہت سے لوگوں نے ہفتے کی سہ پہر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں اپنی تقریر کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خط پر خامنہ ای کے ردعمل کی توقع کی۔ اگرچہ خامنہ ای  کی تقریر کا مکمل متن ابھی تک جاری نہیں کیا گیا لیکن بظاہر انہوں نے ٹرمپ کے خط کا براہ راست ذکر نہیں کیا۔

ٹرمپ کا آؤٹ آف باکس سالیوشن چوبیس گھنٹوں میں ہی ناکارہ ثابت ہوا

"دباؤ میں بات چیت نہیں کریں گے"- یہ بات ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی پہلے ہی اس وقت کہہ چکے ہیں جب وہ روس کے وزیر خراجہ سرگئی لاروو کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس کر رہے تھے۔ لیکن تب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خامنہ ای کو خط کا انکشاف نہیں ہوا تھا۔ اب خامنہ ای کے اپنی آڈئینس کے روبرو صدر ٹرمپ کے خط کے جواب میں "دباؤ میں مذاکرات" کرنے سے انکار نے امریکہ اور ایران کے درمیان کمیونیکیشن کی پیچیدگی کو ایک بار پھر عیاں کر دیا۔  امریکہ ایران  کونفلکٹ کے سٹوڈنٹس کے لئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خامنہ ای کو براہ راست خط لکھ ڈالنا ہی ایک "آؤٹ آف باکس سالیوشن" تھا، جو بطاہر چوبیس ہی گھنتے میں ناکارہ ثابت ہوا۔

خامنہ ای معمول کے مطابق ہر رمضان میں صدر سمیت اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ تاہم اس بار یہ اعلان غیر معمولی طور پر تہران کے وقت کے مطابق جمعہ کی شام کو آیا۔ یہ ٹائم لائن واضح کر رہی ہے کہ یہ ٹرمپ کے ہی خط کا جواب ہے۔ ٹرمپ نے اپنی فیوریٹ میڈیا آؤٹ لیٹ سے نشر ہونے والے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے خامنہ ای کو خط لکھ کر   ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کی پیشکش کی  ہے اور اس خط میں ہی متنبہ کیا کہ مذاکرات کا متبادل فوجی مداخلت ہے۔

خط نہیں ملا، ایرانی سفارتکار کا مزید توہین آمیز رسپانس

صدر ٹرمپ نے امریکہ کے لئے انتہائی ھساس نوعیت کی کمیونیکیشن غیر روایتی اور ممکنہ طور پر سٹیٹ آفس کی مشاورت کے بغیر کی اور اس کا انکشاف غیر متوقع طور پر ایک انٹرویو میں کیا۔ 

 اس کمیونیکیشن کو ایران کے سپریم لیڈر نے تو بالواسطہ رسپانڈ کر دیا لیکن ایران نے باضابطہ طور پر ٹرمپ کا خط موصول ہونے کا اعتراف نہیں کیا ہے۔ جمعہ کو نیویارک میں تہران کے اقوام متحدہ کے مشن نے کہا کہ ایران کو "اب تک" ایسی کوئی خط و کتابت موصول نہیں ہوئی۔

روسی ثالثی پر قیاس آرائیاں

ایران اور امریکہ کے درمیان روس کے ثالثی کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے، بعض ایرانی میڈیا اور پنڈتوں نے قیاس کیا ہے کہ یہ خط ایرانی سفیر کاظم جلالی کو ان کی روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف کے ساتھ جمعے کے روز تہران کے وقت دوپہر کے قریب ملاقات کے دوران دیا گیا ہو گا۔ تہران اور ماسکو دونوں نے کہا کہ اس ملاقات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے حل کے لیے بین الاقوامی کوششوں اور تہران ماسکو تعاون پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔

خامنہ ای پرست "سخت گیر " میڈیا نے کوئی جواب نہیں دیا

2015 کے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری کے بعد ٹرمپ نے 2019 میں خامنہ ای کو ایک اور خط بھیجا تھا۔ خامنہ ای نے اس خط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، جو اس وقت کے جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے بھیجا تھا، اس وقت بھی خامنہ ای نے اصرار کیا  تھا کہ ٹرمپ ناقابل اعتماد ہیں۔

ایران کے رجعت پسند اور ایٹمی طاقت بننے کے حامی پاسدارانِ انقلاب  (IRGC) سے منسلک جاون اخبار کے ایک اداریے نے ہفتے کے روز ٹرمپ کے تازہ خط کو "امریکہ کی پروپیگنڈہ پہیلی کا ایک حصہ" قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

 خامنہ ای کی جانب سے ٹرمپ کے 2019 کے خط کو قبول کرنے سے انکار کا حوالہ دیتے ہوئے، جاون کے  اداریہ میں تجویز کیا گیا کہ ایران ایک بار پھر ٹرمپ کے پیغام کو نظر انداز کر دے گا۔ اسلامی جمہوریہ کی پالیسیوں کی بنیاد پر؛ اس خط پر ایران کے ردعمل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کوئی جواب نہیں دیا جائے گا، یہ فرض کرتے ہوئے کہ خط پہنچ چکا ہے ۔" آرٹیکل میں کہا گیا۔

انتہائی سخت گیر کیہان اخبار نے اسی طرح فروری میں ایک تقریر میں 2019 کے واقعے اور خامنہ ای کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے خیال کو مسترد کرنے کا حوالہ دیا۔ ہفتے کے روز اپنے اداریے میں، کیہان نے دلیل دی کہ ٹرمپ کے بنیادی اہداف اپنے امیج کو بہتر بنانا اور سفارت کاری کی کمی کا الزام ایران پر ڈالنا تھا۔

بیک چینل ڈپلومیسی

ایران اور امریکہ عام طور پر بیک چینلز یا ثالثوں کے ذریعے بات چیت کرتے ہیں، جیسے کہ عمان، جس نے کئی مواقع پر دونوں ممالک کے حکام کے درمیان ملاقاتوں یا پیغامات بھیجنے میں سہولت فراہم کی ہے۔

سابق صدر براک اوباما نے مبینہ طور پر 2009 اور 2015 کے درمیان خامنہ ای کو متعدد خطوط بھیجے جن میں سفارت کاری، جوہری معاہدہ (JCPOA) اور ISIS کے خلاف ممکنہ تعاون جیسے موضوعات پر بات کی گئی۔ تاہم، ایسی کوئی اطلاعات نہیں ہیں کہ خامنہ ای نے کبھی ان خطوط کا تحریری جواب دیا ہو۔