سٹی42: پاکستان کے14ویں صدر مملکت بننے والے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینزکے صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی سیاسی زندگی جیل کی قید و بند ، سیاسی انتقام، جدوجہد اور طاقت و اقتدار کے عروج تک بہت سے نشیب و فراز سے بھری ہے۔ انہوں نے پاکستان کے سیاستدانوں میں طویل ترین عرصہ تک جیل میں قید بھی کاٹی اور صرف آمروں کو دوسری بار صدر بننے کا موقع دینے والی ریاست میں دوسری مرتبہ صدرِ مملکت بننے والا پہلا سویلین سیاستدان بھی بن گئے۔
آصف علی زرداری 26جولائی1955ءکو نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز بلوچ گھرانے میں پیدا ہوئے. ان کے والد حاکم زرداری بزنس مین اور سیاست دان تھے جو 24مئی 2011ءمیں اپنی وفات تک زرداری قبیلے کے سردار بھی رہے۔
آصف علی زرداری کی تعلیم
آصف علی زرداری نے پرائمری تعلیم کراچی کے گرائمر سکول سے حاصل کی جس کے بعد وہ ہائی سکول کی تعلیم کےلئے کیڈٹ کالج پٹارو میں داخل ہوئے،مختصر عرصے کےلئے وہ کراچی کے سینٹ پیٹرک ہائی اسکول میں بھی رہے اور پھر اعلیٰ تعلیم کےلئے لندن چلے گئے۔ بعد میں انہوں نے لندن سکول آف اکنامکس اینڈ بزنس میں بھی داخلہ لیا تھا۔
چائلڈ سٹار آصف زرداری
صدر آصف علی زرداری نے کمسنی میں 1968ءمیں فلمساز سجاد کی اردو فلم "منزل دور نہیں" میں چائلڈ سٹار کی حیثیت سے اداکاری کی تھی۔ بعد کی زندگی میں وہ علم و فن سے گہری دلچسپی رکھتے رہے تاہم بعد میں انہوں نے کبھی اداکاری میں دلچسپی نہیں لی۔
شہید بی بی سے شادی، آصف زرداری کی زندگی کو بدل دینے والا موڑ
18دسمبر 1987میں آصف زرداری کی بینظیر بھٹو سے شادی ہوئی۔ اس شادی نے آصف علی زرداری کی زندگی کو بدل دیا۔ آصف علی زرداری کی محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ شادہ ایک روایتی ارینجڈ میرج تھی۔ ان کے والد حاکم علی زرداری نے سندھ کی روایت کے مطابق محترمہ بینظیر بھٹو کے لئے آصف زرداری کا رشتہ بھیجا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی والدہ نے گرے غور و فکر اور چھان بین کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ وہ آصف کے متعلق سوچیں، محترمہ بینظیر بھٹو نے آصف علی زرداری کو اپنے طور پر دیکھا پرکھا ور رشتہ کے لئے ہاں کر دی تھی۔
فیملی لائف
آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کی شادی روایتی شادی کی یادگار تقریب تھی۔ تاہم محترمہ بینظیر بھٹو کی پاکستان اور دنیا بھر میں بے پناہ شہرت کے باعث اس روایتی شادی کو عوام و خواص کی بے تحاشا توجہ ملی تھی۔ شادی کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کے شہید ہونے تک ان کا آصف علی زرداری کے ساتھ تعلق مثالی رہا۔ محترمہ بینظیر بھٹو خود ایک نابغہ رُوزگار شخصیت تھیں لیکن وہ آصف زرداری کے گہرے تدبر اور دور اندیشی، مخلص طبعیت، منکسر مزاج اور حسِ مزاح کی ہمیشہ مداح رہیں۔ انہوں نے شادہ کے بعد ابتدا مین ہی آصف علی زرداری کو اپنے قریبی مشیروں کے حلقہ میں جگہ دے دی تھی۔ آصف زرداری محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاست میں ہمیشہ ایک مستعد معاون کا کردار ادا کرتے رہے۔
آصف زرداری کی اولاد
محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ہاں پہلی اولاد بلاول بھٹو زرداری پیدا ہوئے،آصف زرداری کی دو بیٹیاں بھی ہیں، جن کے نام آصفہ اور بختاور بھٹو ہیں۔
سیاست کا آغاز
آصف زرداری نے بینظیر بھٹو سے شادی سے پہلے 1985 میں غیر جماعتی الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت پیپلز پارٹی نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا۔ بی بی شہید کے ساتھ شادی کے بعد جب محترمہ بینظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو آصف زرداری ان کی کچن کیبنٹ میں شامل تھے۔ بی بی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو آصف زرداری نے پہلی مرتبہ سیاست میں پیچھے رہ کر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اور تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شہید بی بی کے کہنے پر آصف زرداری نے 1990ءمیں کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑا اور رکن قومی اسمبلی بنے۔ ان کی اہلیہ بینظیر بھٹو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاب بنیں۔
بینظیر بھٹو کے ساتھ آصف علی زرداری کو بھی انتْامی کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ 1990ءمیں انہیں اغوا برائے تاوان کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا اور انہیں جیل میں بند کر دیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک کاروباری شخصیت کو اغوا کرنے کے بعد اس کی پنڈلی پر بم باندھ کر بینک سے تاوان کی رقم نکلوانے کےلئے بھیجا تھا تاہم یہ الزام درست ثابت نہ ہو سکا اور انہیں تین سال بعد جیل سے اس وقت رہا کیا گیا جب ملک میں سیاسی حالات بدل چکے تھے۔
بعد ازاں 1993 میں آصف زرداری نوابشاہ سے رکن قومی اسمبلی بنے اور بینظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں۔ انہوں نے آصف زرداری کو اپنی کابینہ میں ماحولیات اور سرمایہ کاری کا وزیرمقرر کیا۔آصف علی زرداری 1996ءمیں بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد زرداری ایک بار پھر گرفتار ہوئے۔ ان پر متعدد الزامات عائد کیے گئے، جن میں سے ایک اپنی اہلیہ کے بڑے بھائی مرتضی بھٹو کے قتل کا مقدمہ بھی تھا،اس مرتبہ وہ 8سال تک جیلوں میں رہے، اس دوران وہ علیل بھی ہو گئے۔ ان کی قید کے دوران ہی محترمہ بینظیر بھٹو کو انتْامی کارروائیوں سے بچنے کے لئے دوسری مرتبہ جلا وطن ہونا پڑا۔ آصف علی زرداری کے خلاف بنائے گئے تمام مقدمات کا انہوں نے پامردی سے سامنا کیا، عدالتوں میں ان کے خلاف تمام مقدمات ایک ایک کر کے جھوٹے ثابت ہوئے تاہم انہیں ضمانت پر رہا نہیں کیا گیا۔
مقدمات سے خلاصی، ضمانت پر رہائی
آصف زرداری کو ان کے خلاف تقریباً تمام مقدمات عدالتوں میں طویل ٹال مٹول پر مبنی سماعتوں کے نتیجہ میں بے بنیاد نکلنے کے بعد 2004ءمیں ضمانت پر رہائی ملی۔رہائی کے بعد وہ بیرونِ ملک چلے گئے اور جیل کی طویل پر صعوبت ندگی کے اثرات سے نکلنے میں انہیں کئی سال لگے۔
آصف علی زرداری نے 2006 میں پاکستان کے تقریباً تمام اہم جمہوری سیاست دانوں کے ساتھ مل کر چارٹر آف ڈیموکریسی کے معاہدہ تک پہنچنے کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو کی مسلسل معاونت کی۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد اکتوبر 2007 میں بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو انہوں نے سیاسی مصلحت کے تحت آسف علی زرداری کو ملک سے باہر رکھا۔ شہید بی بی کے خدشات صحیح نکلے اور ان پر کراچی آتے ہی خوفناک قاتلانہ حملہ ہو گیا جس میں ڈیڑھ سو سے زیادہ کارکن شہید ہو گئے۔ دسمبر 2007ءمیں بینظیر بھٹو کو راولپنڈی مین لیاقت باغ کی مقتل گاہ میں شہید کر دیا گیا تو آصف زرداری فوری طور پر پاکستان واپس آئے۔
بینظیر بھٹو کی شہادت سے پاکستان کھپے تک
27 دسمبر 2007میں بینظیر بھٹو کے بہیمانہ قتل کے بعد پاکستان بھر میں شدید نوعیت کا عوامی ردعمل آیا، خصوصاً سندھ میں گھیراؤ جلاو اور تشدد کے واقعات ہوئے۔ اس تشویشناک صورتحال مین پاکستان پیپلز پارٹی کو اور پاکستان کو آصف علی زرداری نے اپنے گہرے تدبر سے سنبھالا۔ انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کی تدفین کے بعد پہلے سیاسی اجتماع میں جب ہر طرف شدید اشتعال تھا اور علیحدگی پسند عناصر سندھ کے عوام کو پاکستان کے خلاف اکسا رہے تھے، آصف زرداری نے "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگایا، یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستان ریاست کے شدید بحران سے دوچار تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی آمریت اس بحران سے ملک کو نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ آصف زرداری نے انتخابات کے بائیکاٹ پر اکسانے والے عناصر کو بھی غیر موثر کیا اور محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے قانونی جدوجہد کرنے اور پارٹی کے انتخابات میں حصہ لینے کا دانشمندانہ راستہ اختیار کیا۔
مشکل صورتحال سے نمٹنے کی کمال مہارت کی وجہ سے لوگوں کو ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔وہ زرداری ہی تھے، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نواز شریف کو اس وعدے کے ساتھ قائل کیا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دیں گے، 2008 میں نواز شریف اور ان کے درمیان مری معاہدہ بھی ہوا۔2008میں، ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو وفاق میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں، مخلوط حکومت بنانے کا موقع ملا۔
اس فیصلہ کے نتیجے میں 2008 کے انتخابات کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت بنی، شہید بی بی کے وفادار معتمد یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے اور اس کے بعد آمر کو پر امن سیاسی جدوجہد سے ایوان صدر سے نکالا گیا ۔ ملک میں صدر مملکت کا ووٹ کے زریعہ انتخاب ہوا اور آصف عل یزرداری پہلی مرتبہ صدر بنے۔
آرٹیکل 58 ٹو- بی کا خاتمہ
صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد آصف علی زرداری نے پہلا کام یہ کیا کہ خود کو آمر کی تریم کے سبب حاصل قومی اسمبلی توڑنے کا آمرانہ اختیا سرنڈر کر دیا۔ انہوں نے اپنی حکومت کو ہدایت کی کہ آرٹیکل 58 ٹو بی کو آئین سے نکالنے کے لئے ترمیم پارلیمنٹ میں لائی جائے۔ محترمہ بینظیر بھتو کے روایتی حریفوں نے بھی اس ترمیم کی حمایت کی اور پاکستان کا پارلیمانی جمہوریت پر مبنی دھانچہ بہت حد تک اپنی اصل شکل میں بحال ہو گیا۔
اٹھارویں آئینی ترمیم
آسف علی زرداری کی قیادت مین پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک اہم کام یہ کیا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں جمہوری سیاستدانوں کے طے کردہ لائحہ معل کو رو بہ عمل لانے کے لئے آئین مین درجنوں اہم ترامیم پر مشتمل 18 ویں آئینی ترمیم کی تیاری کے لئے پیچیدہ سیاسی مشقت کی۔ اس ترمیم کے نتیجہ میں پاکستان میں صوبائی خودمختاری کا دیرینہ مسئلہ معتدبہ طریقہ سے حل ہو گیا، چھوٹے صوبوں کی جائز شکایات ختم ہو گئی اور وفاقی نظام کے آگے بڑھنے کے لئے زیادہ صحت مند بنیاد فراہم ہو گئی۔
پیچیدہ چیلنجوں کا مقابلہ
پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران پارٹی اور آصف زرداری کو پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، ملک کی معیشت کا طویل آمریت کے دوران عاقبت نا اندیش پالیسیوں کے سبب دیوالیہ نکل چکا تھا، ملک بدترین توانائی بحران، غربت، بے روزگاری اور اقتصادی بدحالی کا شکار تھا، اس پر مستزاد، سپریم کورٹ کے بعض ججوں نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ڈکٹیشن پر چلانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد انہیں ایک توہین عدالت کے ناکردہ جرم میں ایک منٹ قید کی سزا دے کر وزارت عظمیٰ سے محروم کر دیا اور اس کے ساتھ نا اہل بھی قرار دے دیا۔ آصف زرداری نے ایک بار پھر دانشمندی سے ملک اور سیاست دونوں کو سنبھالا، انہوں نے گجر خان کے کم معروف راجہ پرویز اشرف کو یوسف رضا گیلانی کی جگہ وزیر اعظم بنوایا، اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے پر منصفانہ الیکشن کروایا اور اقتدار الیکشن میں کامیاب ہونے والی اپنی روایتی حریف پارٹی مسلم لیگ نون کو منتقل کروایا۔ اپنی صدارت کی مدت پوری ہونے کے بعد عام سیاستدان کی حیثیت سے ایک بار پھر سیاست کرنے لگے۔
تاریخ ساز بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز
آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا۔ابتدا میں اس تاریخ کا رخ بدل دینے والی سکیم کو کئی وجوہات کی بنا پر تنقید کا سامنا رہا، ایک وجہ منصوبے کا جلدی میں شروع کیا جانا تو دوسرا یہ کہ مستحق غریب خاندانوں کو ایک ہزار روپے کی مالی معاونت، غربت اور مہنگائی کے لحاظ سے نہایت قلیل تھی۔ بعد ازاں اس پروگرام کا دائرہ کار مسلسل وسیع کیا جاتا رہا اور فراہم کی جانے والی امدادی رقم میں بھی قدرے اضافہ کیا گیا۔ اس پروگرام کو بعد مین آنے والی تمام حکومتوں کو جاری رکھنا پڑا۔ اب دنیا مین اس پروگرام کو خطِ غربت سے نیچے گر چکے عوام کی بحالی کی ایک آزمودہ کوشش کی حیثیت سے جانا اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
آغازِ حقوقِ بلوچستان
آصف زرداری کے عہد صدارت میں کشیدگی کے شکاربلوچستان کے لیے آغازِ حقوق بلوچستان پیکیج پیش کیا گیا اور ساتواں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی)ایوارڈ منظور ہوا۔
خواتین کے لئے اہم قانونی اصلاحات
دسمبر 2011 میں صدر زرداری نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ دو مسودہ قانون پر دستخط کیے، جس کے نتیجے میں خواتین کے خلاف متعدد جرائم قابلِ سزا جرم بن گئے۔پہلے مسودہ قانون کے تحت مختلف روایتی رسم و رواج کے تحت لڑکیوں کی جبرا شادی نہ کرنا اور وراثت میں سے انہیں حصہ نہ دینا قابلِ سزا جرم بن چکے۔دوسرا مسودہ قانون خواتین پر تیزاب پھینکنے سے متعلق تھا، جو اس قانون کے تحت نہایت کڑی سزا کا حامل جرم بن چکا۔
مسلم لیگ نون کی حکومت کے مدت پوری کرنے میں کردار
سنہ 2014 سے مسلم لیگ نون کی حکومت کے خلاف جو بغاوت نما تحریک بعض عناصر نے چلائی اس کے دوران آصف علی زرداری مسلسل اپنے روایتی حریفوں کی ڈھال بنے رہے۔ انہوں نے نواز شریف کی حکومت کو گرانے کی ہر سازش کی مخالفت کی اور خاموشی کے ساتھ اس حکومت کو نواز شریف کی برطرفی کے بعد بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے لئے درکار مدد پہنچاتے رہے۔
بعد ازاں 2018 میں وہ این اے 213 شہید بینظیر آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے 2018 سے پی ٹی آئی کی نامقبول اقلیتی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے تک جمہوری قوتوں کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ شہباز شریف کی پہلی حکومت کے دوران ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے ملک کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے مشکلات میں گھری ریاست کی یاوری کی۔
2024 کے عام انتخابات میں آصف زرداری این اے 207 بینظیر آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے پشتونخوا مل عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے مقابلے میں صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور پاکستان کے 14ویں صدر منتخب ہوئے۔الزامات میں گھرے آصف علی زرداری کو کئی تنازعات کے ساتھ ساتھ بدستور بدعنوانی کے الزامات کا بھی سامنا رہا ۔انہوں نے مختلف الزامات کے باعث کئی سال جیل میں بھی گزارے، ان کی مبینہ بدعنوانی پر مبنی قصوں کو قومی ذرائع ابلاغ میں بڑے پیمانے پر مشتہر کیا جاتا رہا۔بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ان پر منصوبوں سے کمیشن لینے اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگے۔ ان کے خلاف سب سے معروف الزام سوئز کمپنی سے کمیشن لینے کا تھا جس پر ایک عدالت نے 1999 میں انہیں دو سال قید کی سزا دی تاہم سپریم کورٹ نے بعد میں عدالتی فیصلے کو سیاسی بنیاد پر قرار دے کر، پاکستان میں ازسرِ نو سماعت کا حکم دیا لیکن سن2003 میں ایک سوئز عدالت نے زرداری اور بینظیر کو منی لانڈرنگ اور رشوت لینے کا قصور وار قرار دے دیا۔2007 میں آصف زرداری اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے صدر پرویز مشرف نے قومی مفاہمتی آرڈیننس یعنی این آر او جاری کیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے این آر او کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ اسے ایسا معاہدہ سمجھا جائے جو کبھی تھا ہی نہیں،اس فیصلے سے پی پی پی اور زرداری کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔طویل عرصے تک تنازع کا سبب رہنے والے سوئز کیس کے حوالے سے سوئٹزر لینڈ کی انتظامیہ نے کہا کہ وہ قانونی بنیاد پر صدر زرداری کے خلاف دائر مقدمے کو دوبارہ نہیں کھولنے سے قاصر ہیں۔صدر زرداری کو اپنے دو عہدوں سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے الزام میں توہین عدالت کے کیس کا بھی سامنا رہا تاہم پارٹی عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ان کے خلاف یہ کیس ختم کر دیا گیا۔زرداری کی صدارت اور پی پی پی کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر 18 ویں ترمیم کی حمایت میں ووٹ دیاجس سے صدر کے اہم اختیارات میں کمی ہوئی اور منتخب حکومتیں تحلیل کرنے کا صدارتی اختیار واپس لے لیا گیا، ترمیم کے تحت کئی وزارتوں کو صوبوں تک منتقل کر دیا گیا، جس سے مرکز کی طاقت میں کمی ہوئی اور اکائیوں کو مزید اختیار ملا۔