پاک بھارت میچ؛ نیویارک کی وکٹ پر بربادی سے بچنے کا "اسمِ اعظم"

9 Jun, 2024 | 02:31 AM

 وسیم عظمت: نیویارک میں آج شام  پاکستان اور بھارت کے میچ میں بارش کے واضح امکانات کے  ساتھ  دوسرا بڑا بے یقینی کا فیکٹر خطرناک پچ ہے۔ پچ میں موجود باؤنس  ہفتہ کے روز رولر پھر جانے کے باوجود برقرار رہا تو  آج پاکستانی باؤلر یقیناً انڈین سٹار بیٹرز کو ناکوں چنے چبوا کر پچھلے تمام حساب بے باق کر دیں گے۔

امریکہ کے فنانشل کیپیٹل میں نساؤ کاؤنٹی انٹرنیشنل سٹیڈیم  کی یہ  بدنام وکٹ  گزشتہ تین میچوں میں دنیا کے بہترین بیٹرز کو خون کے آنسو رلا چکی ہے لیکن پاکستان اور انڈیا کے میچ سے ایک روز پہلے اس وکٹ پر سے گھاس اُڑا کر رولر پھیر دیا گیا ہے۔

وکٹ کی اس پراسرار مرمت کے بعد آج شام وکٹ کا بی ہیوئیر کس کے ساتھ کیا ہو گا  اس کے متعلق صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں تاہم یہ یقینی ہے کہ  پچ پر سے گھاس اترنے کے باوجود باؤنس برقرار رہا تو پاکستانی باؤلر  انڈین بیٹرز کو ناکوں چنے چبوا کر ہی چھوڑیں گے۔

پاک بھارت میچ سے کچھ گھنٹے پہلے وکٹ پر رولر پھیرنے کا فیصلہ آئی سی سی نے کیا لیکن یہ فیصلہ ہفتہ کے روز ہی کیوں کیا گیا اس کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آئی۔ بظاہر وجہ یہ بتائی گئی کہ وکٹ میں غیر متوقع بائونس کا فیکٹر ختم کرنے کے لئے صرف گھاس کچھ کم کی گئی اور  رولر پھیرا گیا ہے لیکن یہ کام جمعہ کے روز آئرلینڈ اور کینیڈا کے میچ سے پہلے جمعرات کو بھی کیا جا سکتا تھا کیونکہ ان اِیون باؤنس کی شکایت تو پہلے دو میچوں میں بھی موجود رہی تھی اور تیسرے میچ میں  گزشتہ دو میچوں کی نسبت وکٹ کا رویہ بیٹرز کے لئے کم خطرناک رہا تھا۔ 

 آج میچ میں مدمقابل دو ٹیمیں ایک دوسرے کے سامنے  جب بھی آتی ہیں اپنے پورے ہتھیار سونت کر آتی ہیں اور میچ کو عملاً دو ملکوں کی جنگ کی طرح کھیلتی ہیں، ان کے میچ میں کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن وکٹ ہمیشہ کسی ایک ٹیم کی ہی مرضی کی بنتی ہے۔ اس مرتبہ بھی بظاہر تو  دونوں ٹیمیں تیسرے ملک امریکہ میں کھیل رہی ہیں لیکن وکٹ بنوانے میں بھارت کے دباؤ کا عمل دخل بتایا جا رہا ہے۔ 

نیویارک کی اس وکٹ  پر ہونے والے آئی سی سی ورلڈ کپ کے  تین میچوں کا حال دیکھ  اس پچ کو "بیٹر کِلر پچ" بھی کہا جا رہا تھا۔ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اسی وکٹ پر آج اتوار کے روز پاکستان اور انڈیا کا بھی میچ ہو گا لیکن اب رولر پھرنے اور پچ پر موجود گھاس کا خاصا حصہ اُڑا دیئے جانے کے بعد یہ بیٹر کِلر وکٹ بیٹرز کے لئے کس قدر خطرناک ہو گی یہ اندازہ لگانے کا کوئی قابل اعتماد طریقہ دستیاب نہیں۔ 

کیا  آج بڑا سکور بن  پائے گا؟

آج وکٹ پر کتنے رنز بننا ممکن ہو گا؟ یہ اس  وقت ملین ڈالرز کا سوال ہے،  آئی سی سی مینز ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کے 2  میچوں کی  4اننگز میں کوئی بھی ٹیم اس وکٹ پر  100 رنز سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی تاہم تیسرے میچ میں کینیڈا  137 رنز بنانے میں کامیاب ہوئی اور آئرش ٹیم  125 رنز ہی بنا پائی۔ آج  اگر  غیر معمولی باؤنس کا فیکٹر ختم ہو چکا ہوا تب بھی گراؤنڈ کی حالت اور ہوا میں گیند کو سوئینگ دینے کی  صلاحیت اپنی جگہ موجود رہے گی اور کسی بڑے مجموعہ کا بننا آسان نہیں ہو گا۔ 

 بھارت کے کرکٹ ایکسپرٹس  180 رنز کو آج وننگ سکور قرار دے رہے ہیں لیکن وکٹ  پر پہلے تین اوور ہی یہ طے کر دیں گے کہ بیٹر کِلر وکٹ بیٹرزکو خود پر کتنا حاوی ہونے دیتی ہے۔ 

نیویارک کی وکٹ میں کیا غیر معمولی ہے؟

اب تک ہونے والی تین میچوں کی چھ اننگز میں جو کچھ سامنے آیا وہ یہ ہے کہ وکٹ میں غیر متوقع باؤنس ہے اور پچ پر پڑنے کے بعد بال غیر متوقع رفتار سے اٹھتی ہوئی آگے جاتی ہے۔ صرف  یہی نہیں، یہاں بال سوئنگ بھی زیادہ ہوتی ہے، اب تک ہونے والے میچوں میں یہاں سوئنگ کرنے والے باؤلرز  کی گیندوں میں یہاں  لیٹرل موومنٹ  دیکھی گئی ہے۔   آسان زبان میں اسے باؤلرز کی وکٹ بھی کہا جا سکتا تھا لیکن بیٹرز کے لئے غیر متوقع عنصر نے تینوں میچوں کی چھ اننگز میں زیادہ رنز نہیں بننے دیئے۔ غالباً اس لئے بھی نیویارک کی وکٹ زیادہ تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ 

نیویارک کی صرف وکٹ ہی مشکل نہیں بلکہ قدرے ریتلی اور بال کی سپیڈ کو سست کرنے والی گراؤنڈ بھی بیٹرز کی انرجی کے لئے آزمائش گاہ ہے۔ یہاں گیند کو باؤنڈری پار کروانا بچوں کا کھیل بہرحال نہیں ہے۔

پاکستانی فاسٹ باؤلر کی آنکھ سے دیکھئے تو۔۔۔

نیویارک کی وکٹ کے متعلق یہاں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرنے والے فاسٹ باؤلرز   نے اس وکٹ پر ہونے والی چھ اننگرز میں بہت تھوڑے رنز دے کر وکٹیں گرائیں۔ انہوں نےاس وکٹ کی "خوبی" کو خوب سلیبریٹ کیا۔ آج ہونے والے میچ میں پاکستانی باؤلرز بھی غیر معمولی کارنامہ کرنے کے متعلق خواب دیکھ رہے ہیں لیکن آئی سی سی کی مینیجمنٹ نے  صرف   ایک دن پہلے وکٹ کی حالت کو بدل کر اس خواب کو قدرے دھندلا دیا ہے۔ 

 گیند  کے غیر متوقع اور قدرے غیر مساوی  اچھال اور گیند کو  ٹپہ پڑنے کے بعد زیادہ  تیزی سے اٹھاتے ہوئے  آگے بھیجنے کی خصوصیات تقریباً ہر باؤلرز وکٹ میں کسی حد تک موجود ہوتی ہیں لیکن نیویارک کی وکٹ کی کیونکہ کوئی ہسٹری نہیں اور یہاں کرکٹ کا ابھی آغاز ہی ہے، شاید اس لئے بھی ناقدین اس وکٹ کو زیادہ گہری نظروں سے گھور گھور کر دیکھ رہے اور اس میں کیڑے نکال رہے  تھے۔

اب "پراسرار مرمت" کے بعد پچ کے متعلق گزشتہ چھ اننگز میں حاصل ہونے والا تجربہ کسی حد تک اِرریلیونٹ ہو گیا ہے تاہم اب بھی اسے بیٹرز کے لئے آسان وکٹ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صرف  سطح پر موجود گھاس کم کی گئی ہے۔ بال کو اوپر اچھالنے کی صلاحیت بنیادی طور پر وکٹ کی تعمیر میں استعمال ہونے والی مٹی میں ہوتی ہے جسے غالباً تبدیل نہیں کیا گیا۔  اچھال برقرار رہا اور سوئینگ بھی برقرار رہی تو آج شام پاکستان اور بھارت کے فاسٹ اور میڈیم فاسٹ باؤلر غیر متوقع کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں۔ 

سری لنکا، ساؤتھ افریقہ، کینیڈا اور  آئرلینڈ کے بعد آج بھارت اور پاکستان

 سری لنکا  کی گرگِ باراں دیدہ ٹیم  3 جون کو  نیویارک کی  "بیٹر کِلر وکٹ" پر  صرف 77 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی  تھی اور جنوبی افریقہ کی جلیل القدر بیٹرز سے بھری ٹیم کو  اس معمولی ہدف  کا تعاقب کرنے کے لئے  16.2 اوورز  تک وکٹ پر ایڑیاں رگڑنا پڑی تھیں۔ 

 بدھ کے روز،  بزعمِ خود متوقع ورلڈ چیمئین انڈیا کی ٹیم نے نیویارک کی اس پچ پر  نے آئرلینڈ کو  96 رنز پر آؤٹ کیا اور  ساؤتھ افریقہ کی نسبت انڈیا کو 86 رنز کے ہدف کا  تعاقب کرنے میں قدرے کم دشوری ہوئی لیکن روہت شرما اوپر اٹھتی گیند کی ضرب سے زخمی ہوگئے تھے اور انہیں ریٹائرڈ ہرٹ ہو کر پویلین واپس جانا پرا تھا۔  رشبھ پنت کو بھی ایسی ہی اٹھتی ہوئی گیند کہنی پر لگی تھی تاہم انہیں کھیل چھوڑ کر واپس نہیں بھیجنا پڑا تھا۔ 

انڈیا ، آئر لینڈ دنگل کے صرف دو دن بعد، نیویارک کی پچ پر   آئرلینڈ  اور کینیڈا کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں اور ان کے ساتھ بھی وکٹ نے گزشتہ ٹیموں جیسا ہی سلوک کیا۔ کینیڈا  کے سات بیٹر  20 اوورز میں  137 جبکہ آئرلینڈ کے سات بیٹر  صرف 125 رنز بنا پائے۔ آج  پاکستان اور بھارت کے میچ سے پہلے  کرکٹ لورز، ناقدین اور مبصرین کی نظریں  "بیٹر کِلر پِچ"  کی پیچیدہ  اور پراسرار   باؤلر پرستی پر مبنی فطرت پر مرکوز ہیں۔

نیویارک کی وکٹ پر بربادی سے بچنے کا "اسمِ اعظم"

نیویارک کی یہ وکٹ تھوڑی مشکل ضرور ہے لیکن کرکٹ تو ہے ہی غیر متوقع حالات سے نبٹنے کا کھیل؛  ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیویارک کی وکٹ پر آپ  دوسری بہت سے بیٹرز کو سپورٹ کرنے والی وکٹوں کی طرح اندھا دھند سٹروک نہیں کھیل سکتے،  یہاں  آپ کو روایتی کرکٹ کھیلنا ہوگی_ یعنی ذمہ دارانہ اور سینس ایبل بیٹنگ!  اور جو میں دیکھ رہا ہوں، اوپر اٹھتی ہوئی بالز کو کھیلنا کرکٹ کی مہارتوں کا ایک لازمی حصہ ہے، جن بیٹرز نے اچھی کلبوں سے آغاز کیا وہ اس وکٹ کو بالآخر بہتر طریقہ سے ہینڈل کر سکتے ہیں اور وکٹ کے  عطا کردہ مسائل کو ہی  اچھی باؤنڈریز لگانے کے مواقع میں بدل سکتے ہیں۔  یہ وکٹ ڈلاس سے تھوڑی زیادہ مشکل ہے، اس میں  ڈلاس کے مقابلے میں بہت زیادہ سوئنگ ہے۔ اس وکٹ پر گڈ لینتھ پر بالنگ کرنے والے باؤلرز کو چوکا لگانا  قدرے مشکل ہے اس لئے بیٹرز کو تحمل کے ساتھ کمزور گیندوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔

پاکستان  کی نفسیاتی برتری

آج کے میچ  کیلئے پاکستان اور بھارت  کی ٹیموں کے وزن کو  تو  کرکٹ کے معمول کے پیرامیٹرز سے ہی تولا جا رہا ہے  لیکن پاکستان کی ٹیم کو مقابل پر یہ عظیم نفسیاتی برتری حاصل ہے کہ وہ چار خوفناک پیسرز عامر،  شاہین، نسیم شاہ اور حارث رؤف کے ساتھ میدان میں آ رہی ہے جن کی بھارت کے بیٹرز  پر پہلے ہی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔  یہ وکٹ پاکستانی سپنر شاداب کے لئے بھی غیر معمولی بوسٹ فراہم کر سکتی ہے۔

بھارت کا  خوفناک تجربہ

 بیٹرز کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہو رہی اس وکٹ پر  بھارت کی ٹیم ایک میچ کھیل چکی ہے۔ اس میچ میں بھارت کے  کپتان روہت شرما کو  ریٹائرڈ ہرٹ ڈیکلئیر  ہونا پڑا۔  خواہ یہ میچ بھارت جیت گیا تھا لیکن  آج  انڈین بیٹرز جب وکٹ پر آئیں گے تو  سرفیس پر سے گھاس اُڑ جانے کے باوجود ان کی گزشتہ میچ میں لگی چوٹیں ایک نفسیاتی خوف ضرور پیدا کریں گی جس سے جان چھڑانا اس لئے بھی مشکل ہو گا کہ آج شام ان کا سامنا کچھ زیادہ خطرناک باؤلرز سے ہے۔

آج کا میچ  پاکستان  کے لئے زیادہ اہم ہے

آج اتوار  کی شام ہونے والا میچ پاکستان کے لئے اس لئے زیادہ اہم ہے کہ ٹیم امریکہ سے ہارنے کے بعد نہ صرف پوائنٹس ٹیبل پر نیچے ہے بلکہ نفسیاتی دباؤ کے حوالے سے چٹان کے آخری کنارے پر کھڑی ہے۔ یہاں سے واپسی کے لئے آج کا میچ جیتنا پاکستان کے لئے لازمی ہے ورنہ گہری کھائی منہ کھولے اس کا انتظار کر رہی ہے۔

ٹاس کا فیکٹر

آج ٹیم ہار گئی تو  اس کے لئے سپر8 راؤنڈ میں جانے کا راستہ مزید مشکل ہو جائے گا۔آج کے میچ میں نیویارک کی خوفناک وکٹ کے متعلق کہانیاں یقیناً پاکستانی بیٹرز کے لئے بھی اعصاب شکن ہوں گی۔ بابر اعظم کے لئے آج کے میچ کا ٹاس ان کے کیرئیر کے تمام ٹاسز سے زیادہ اہم ہو گا۔ کیونکہ ایک ٹاس ہی انہیں وکٹ کے تباہ کن پوٹینشل کو اپنے ھق میں ایکسپلائٹ کرنے کا موقع دے کر آدھا میچ جتوا سکتا ہے۔ 

مزیدخبریں