ملک اشرف: لاہور ہائیکورٹ میں والٹن ایئرپورٹ مسماری کیلئے جاری آرڈیننس کی قانونی حیثیت کے خلاف درخواست پر سماعت، عدالت نے والٹن ائیر پورٹ کے تربیتی طیاروں کو 8 ہفتے تک پروازوں کی اجازت دے دی ،عدالت نے فریقین کے وکلاء کا موقف سن کر حکم امتناعی جاری کردیا۔
جسٹس علی باقر نجفی ایک ہی نوعیت کی مختلف درخواستوں پر سماعت کی، سول ایوی ایشن اتھارٹی کی لیگل ایڈوائزر نے والٹن ائیر پورٹ کا انفراسٹیکچر مریدکے، فیصل آباد اور سیالکوٹ منتقلی کے حوالے سے رپورٹ پیش کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے ضیاء حیدر رضوی سمیت دیگر وکلاء پیش ہوئے۔ درخواستوں میں وفاقی اور پنجاب حکومت، سول ایوی ایشن اتھارٹی اور دیگر کو فریق بنایا گیا۔ درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا کہ
پنجاب حکومت نے والٹن ایئر پورٹ کی اراضی پر کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پنجاب حکومت نے 100 سالہ تاریخ کا حامل والٹن ایئر پورٹ گرانے کیلئے آرڈیننس بھی جاری کرد یا ہے۔
حکومت کا عوام کے تحفظ کیلئے والٹن ایئرو ڈروم دوسری جگہ منتقل کرنے کا جواز ناقابل فہم ہے، علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب کثیر المنزلہ عمارتوں کی موجودگی کے باوجود فلائٹس آپریشن جاری رہنا حکومتی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے، والٹن ایئر پورٹ کی حیثیت تبدیل کرنے سے قبل درخواست گزاوں کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ والٹن ایئر پورٹ پاکستان کیلئے ایک ورثے کی حیثیت رکھتا ہے تقسیم ہندوستان کے وقت قائد اعظم اسی ایئر پورٹ پر اترے تھے، والٹن ایئر پورٹ سے جہاز فیصل آباد ایئر پورٹ منتقل کرنے کا نوٹس بھی دے دیا گیا ہے۔
مریدکے میں نئے والٹن ایئروڈروم کی تعمیر سے متعلق کوئی حتمی تاریخ بھی نہیں بتائی گئی، لاہور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 128 سے متصادم ہے، درخواست گزاروں کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت والٹن ایئر پورٹ کی حیثیت تبدیل کرنے کیلئے جاری آرڈیننس کو آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دے۔