ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

الیکشن کمیشن انتخابی نشان نہیں روک سکتا، بیرسٹر علی ظفر کا پشاور ہائی کورٹ میں مؤقف

Peshawar High Court, PTI Intra-Party Election, City42, Division bench, Election Commission of Pakistan, Election symbol, bat, Barister Ali Zafar, Sikandar Shah Mohmand, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

عامر شہزاد:  پشاور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو مسترد کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست  کی آج دن میں تین  مرتبہ سماعت  کی، شام کو عدالت کا وقت ختم ہونے پر سماعت کل بدھ کے روز تک ملتوی کر دی گئی۔پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ میں اس کیس کی سماعت جسٹس اعجازِ انور اور جسٹس ارشد علی کر رہے ہیں۔

آج منگل کے روز سماعت آغاز ہونے کے بعد دو مرتبہ پی ٹی آئی کے وکلاء کی درخواست پر  ملتوی کی گئی۔ تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی کیخلاف کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ کے دوکنی بینچ پر مشتمل جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی نے کی پی ٹی آئی وکیل شاہ فیصل اتمانخیل اور بیرسٹر علی گوہر جبکہ  الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر شاہ مہمند عدالت میں پیش ہوئے

پی ٹی آئی کے وکیل کے  دلائل

بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ  یہ مسئلہ دوسرے فریقین کا نہیں صرف الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کا ہے۔  14 لوگوں نے پی ٹی کے انتخابات پر اعتراض کرکے الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا تھا،الیکشن کمیشن نے خود پی ٹی آئی پر 32 اعتراضات لگائے تھے،  الیکشن کمیشن نے اپنی ہی اعتراض پر فیصلہ کرتے ہوئے پارٹی سے بلے کا نشان واپس لیا تھا۔

یہاں پر جن لوگوں نے پی ٹی آئی انتخابات پر اعتراض اٹھایا تھا وہ سب فریق ہیں۔  پی ٹی آئی نے جون 2023 میں انٹرا پارٹی الیکشن کروائے تھھے۔ اس کےبعد فارم 65 الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرایا،  23 نومبر کو الیکشن کمیشن نے ماننے سے انکار کردیا، ہم نے 2 دسمبر کو  دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کروائے، نتائج  الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائے،  الیکشن کمیشن نے بتایا کہ آپ کے انتخابات پر 14 اعتراضات آئے ہیں۔جنہوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں ان میں کوئی بھی پارٹی کے ممبر نہیں ہیں۔ہمارے 8 لاکھ ووٹرز میں اعتراض کرنے والوں کے نام شامل نہیں ہیں۔

 الیکشن کمیشن کے وکیل کا مؤقف

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر شاہ مہمند نے پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات خود پی ٹی آئی کے ہی  آئین کے مطابق نہیں ہیں۔  کسی  بھی شخص کو ان انٹراپارٹی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی ، سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔

جسٹس سید ارشد علی نے سوال کیا کہ اب جب 13 جنوری کو انتخابی نشانات الاٹ ہونے ہیں تو ایسے میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوسکتے ہیں؟ 

 وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کےلئے کسی سے کاغذاتِ نامزدگی طلب ہی نہیں کیے۔

سماعت 13 جنوری کو کرنے کی تجویز اور انٹیرم ریلیف کا مطالبہ

سہ پہر کو سماعت کے دوران جج نے تجویز دی کہ کیوں نہ اس کیس کو پرسوں کے لیے رکھ لیں۔

 بیرسٹر علی ظفر نے اس تجویز کے جواب میں کہا آپ انٹرم ریلیف کو دوبارہ بحال کردیں۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ نہیں وہ ہم نے دیکھ کیا آپکا انٹرم ریلیف حتمی استدعا ہی ہے۔

 بیرسٹر علی ظفر نے کہا، پھر بہت دیر ہوجائےگی، 13 کو نشانات الاٹ ہونگے، ہم پھر الیکشن کمیشن کو فہرست بھی نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

عدالت نے سماعت ملتوی کرنے کی تجویز کو چھوڑ کر کہا ٹھیک ہے آپ دلائل جاری رکھیں، 

الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن پر کوئی سوال نہیں اٹھایا، بیرسٹر علی ظفر کا دعویٰ
بیرسٹر علی ظفر نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ ‏بیرسٹر ظفر  نے کہا، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ الیکشن کمیشن نے کہا سیکرٹری جنرل عمر ایوب کی تعیناتی درست نہیں۔ سیکرٹری جنرل عمر ایوب کی تعیناتی پر انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔ انتخابات کالعدم قرار دینے کے بعد انتخابی نشان واپس لیا گیا،  اب پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد ہونگے، 

پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہوگی۔

الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن مسترد کرنے ، انتخابی نشان روکنے کا اختیار ہی نہیں، پی ٹی آئی کا مؤقف
علی ظفر نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اگر انٹرا پارٹی انتخابات نہ بھی کرائے جائیں تو الیکشن کمیشن کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم نہیں کرسکتی۔الیکشن کمیشن صرف "ریکارڈ کیپر" ہے۔ پارٹی کے عہدیدار پارٹی آئین کے مطابق منتخب ہوتے ہیں۔ ہر پارٹی ممبر کو انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔

نئے ترامیم کے بعد انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی صورت میں جرمانہ عائد ہوسکتا ہے۔ رولز کے مطابق کوئی بھی پارٹی اپنا آئین بناتی ہے۔  رولز کے مطابق پارٹیاں صرف الیکشن کمیشن میں ریکارڈ جمع کراتی ہیں۔ 

کوئی قانون نہیں کہ الیکشن کمیشن انتخابی نشان روک لے، بیرسٹر علی ظفر کا دعویٰ
نئی ترامیم کے بعد انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی صورت میں جرمانہ عائد ہوسکتا ہے۔ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کو سرٹیفیکٹ ویب سائٹ پر جاری کرنا ہوگا۔ کوئی قانون نہیں کہ الیکشن کمیشن کسی پارٹی کا انتخابی نشان روک لے،الیکشن کمیشن کو 7 روز کے اندر سرٹیفکیٹ جاری کرنا لازمی ہے۔

بیٹ کا نشان ہی کیوں چاہئے؟

 جسٹس ارشد علی نے سماعت کے دوران سوال کیا کہ آپ بیٹ کیوں مانگ رہے ہیں، پی ٹی آئی کو بلا کیوں چاہئے؟ بلے میں ایسا کیا ہے؟ آپ کیا دلائل دیں گے کہ  آپ کو بلا ہی کیوں چاہئے۔

انتخابی  نشان سے محروم کرنا پارٹی تحلیل کرنے کے مترادف ہے، بیرسٹر علی ظفر

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سیاسی جماعت کے پاس اختیار ہے کہ وہی نشان مانگے جس پر پہلے کبھی الیکشن لڑا ہو۔ انتخابی طریقہ کار میں سب سے اہم انتخابی نشان ہی ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں۔ 2018 کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے لوگ پارٹ نشان کے ساتھ منسلک ہوجاتے ہیں۔  پارٹی نشان پارٹی ورکرز کےلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔

 کسی پارٹی سے انتخابی نشان لینا اس پارٹی کے متعلق آئینی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق انتخابی نشان پارٹی کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پشاور: سپریم کورٹ نے فیصلہ میں لکھا ہے کہ ملک کےلئے جھنڈا اور پارٹی کےلئے نشان یکساں اہمیت رکھتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ  1964 کے مولانا مودودی کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے ہر رجسٹرڈ جماعت کو انتخابات میں اپنے نشان پر الیکشن کرنے کی اجازت دی ہے۔ مولانا مودودی کیس کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پارٹی انتخابی نشان ورکرز کےلئے نہایت اہم ہوتا ہے۔ انتخابی نشان پی ٹی آئی کا بنیادی حق ہے، غلط تشریح غیر آئینی ہوگی۔

بیرسٹر ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان واپس لیا جانا  پارٹی کو تحلیل کرنے مترادف ہے۔  آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق  الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی و غیر آئینی ہے کیونکہ انکے پاس اختیار نہیں۔ یہ اختیار شاید ہائیکورٹ کے پاس ہے۔

 جسٹس ارشد علی نے کہا، نہیں ہمارے پاس بھی نہیں ہے۔

 عدالت نے کہا کہ آپ ہمیں فیصلوں کی کاپی دے دیں۔ 

 بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ  ہم نے 4 دسمبر کو الیکشن کمیشن کے پاس تمام لیگل دستاویزات جمع کروائی تھیں۔

سماعت میں آخری وقفہ

جسٹس اعجاز انور نے کہا  آپ نے  مسلسل 2 گھنٹے دلائل دئیے، چائے پی لیں،آپ نے سفر بھی کیا ہے۔  3 بج کر 30 منٹ پر جمع ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل

وقفہ کےبعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل شروع کیے۔  الیکشن کمیشن کے وکیل  سکندر شاہ مہمند نے بتایا کہ  پی ٹی آئی نے مختلف دستاویزات میں مؤقف بدلا۔ پی ٹی آئی نے اپنے آئین میں ترمیم کی لیکن جب الیکشن کمیشن نے طلب کیا تو  وہ ترامیم واپس لے لیں۔ اس کے بعد اگر  واپس لی جانے والی ترامیم پر انٹرا پارٹی انتخاباب کرائے گئے تھے  تو وہ تو خود بخود انتخابات کالعدم ہوجاتے ہیں۔

وکیل سکندر شاہ مہمند ایڈووکیٹ نے کہا  الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات شفاف نہیں کرائے۔

سکندر شاہ مہمند نے کہا کہ تحریک انصاف کی درخواست میں ایک پوائنٹ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن صرف ریکارڈ کیپر ہے، اورالیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، پی ٹی آئی کا بیان سراسر غلط ہے، الیکشن کمیشن کے پاس آئینی طور پر اختیار ہے، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ صاف وشفاف انتخابات کو یقینی بنائے۔

 پی ٹی آئی کو تحلیل نہیں کیا، انتخابی نشان واپس لیا

سکندر شاہ مہمند نے کہا کہ  پی ٹی آئی نے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے پارٹی کو تحلیل کیا گیا،یہ بات غلط ہے، اگر ایسا ہے تو پھر سپریم کورٹ جانا پڑے گا،یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ صرف انتخابی نشان واپس لینے کا کیس ہے، انٹرا پارٹی انتخابات صرف پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہونے چاہئیں بلکہ الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔

انٹرا پارٹی الیکشن پر الیکشن کمیشن کو مطمئین کرنا ضروری ہے

سکندر شاہ مہمند نے زور دیا کہ یہ بات درست نہیں کہ  الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں ہے۔ انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد سے متعلق الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔

جسٹس ارشد علی نے سوال کیا  کہ کیا انٹرا پارٹی انتخابات پر آپ کوئی کارروائی کرسکتے ہیں؟ 

 الیکش کمیشن کے وکیل نے کہا جی بالکل کرسکتے ہیں۔

تین شو کاز نوٹس دیئے گئے

جسٹس ارشد علی نے سوال کیا کیا آپ نے انہیں نوٹس دیا؟

الیکشن کمیشن ن کے وکیل نے بتایا کہ پی ٹی آئی کو  ایک نہیں تین شوکاز دئیے گئے۔
انٹرا پارٹی انتخابات  ہر پارٹی نے اپنے پارٹی آئین کے مطابق کرانے ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن پھر اس کو دیکھتا ہے۔ بنیادی حق کی بات جو کی گئی وہ حق آئین و قانون کے مطابق بنتا ہے۔ دونوں طرف کے دلائل سنے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت کل 9بجے تک ملتوی کردی۔