زیڈ اے بی ریفرنس کا فیصلہ مستقبل کے لیے ’نظیر‘ قائم کر سکتا ہے، چیف جسٹس

9 Jan, 2024 | 03:00 AM

امانت گشکوری : سپریم کورٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور  سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ جس میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید علی شاہ شامل تھے۔ حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی نے کیس کی سماعت کی۔

 پیر کے روز ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت کے معاون مخدوم علی خان نے بلاول بھٹو کے جمع کروائے ہوئے تاریخی شواہد میں سے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کیں۔ معزز بنچ کی جانب سے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کے حوالہ سے دو رائے سامنے آئیں، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ محض ایک انٹرویو ہے، یہ صرف ایک جج کا انٹرویو ہے، صرف ایک جج کی رائے کی بنا پر ایک فیصلہ شدہ کیس کو دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔ چیف جسٹس، جسٹس مسرف ہلالی کی رائے اس کے برعکس تھی، ان کا کہنا تھا کہ تین ججوں کے مقابلہ میں چار ججوں کی سنائی ہوئی سزا کے فیصلہ کے سزا کے حق میں فیصلہ دینے والے ایک جج کی رائے فیصلہ کو بدل دینے کے لئے کافی ہے اور فوجداری کیس میں جہاں سیاست ہو اور انصاف نہ ہو تو عدالت کو دوبارہ سننا چاہیے

آج کی سماعت
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت شروع کی تو  کیس کی سماعت کے دوران احمد رضا قصوری روسٹرم پر آگئے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے احمد رضا قصوری کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپ کو ان کی کسی بات پر اعتراض ہے تو لکھ لیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو اب تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن سپریم کورٹ ایسا فیصلہ دے سکتی ہے جو مستقبل کے لیے نظیر بنے۔ سماعت کے دوران عدالتی معاون مخدوم علی خان نے اپنے دلائل دینا شروع کر دیئے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کو واپس نہیں لے سکے۔ لیکن عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی سزائے موت کے حکم پر عملدرآمد کا نہیں ہے، بلکہ یہ عدالت پر بدنما داغ کا معاملہ ہے، وکیل نے مزید کہا کہ ریفرنس کی بنیاد سابق جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اب نہیں پلٹ سکتی۔ ہمارے سامنے مسئلہ عدلیہ اور سیاسی تاریخ کی ساکھ کا ہے۔ سپریم کورٹ ایسا فیصلہ دے سکتی ہے جو مستقبل میں ایک مثال بن جائے۔

جسٹس مظہر نے کہا کہ اگر عدالت نے اس کیس میں کچھ کیا تو کیا ہر کیس میں کرنا ہوگا؟

اسی دوران احمد رضا قصوری روسٹرم پر آئے تاہم چیف جسٹس نے انہیں بولنے سے روک دیا اور عدالتی معاون کو بات جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے قصوری سے کہا کہ اگر انہیں اپنے خلاف کوئی اعتراض ہے تو لکھ دیں۔

مخدوم علی خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ذوالفقار بھٹو کی بہن نے صدر کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی، بھٹو نے خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کو پھانسی کی سزا 4-3 کے فیصلے میں دی گئی۔

چیف جسٹس کی ہدایت پر کمرہ عدالت میں سابق جسٹس نسیم علی شاہ کا ٹی وی انٹرویو چلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستگی کو دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت ایک بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بات صرف یہ ہے کہ اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی، ہم اس بحث میں کیسے پڑ گئے کہ بنچ آزاد نہیں ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایک جج کا انٹرویو پوری عدالت کے بارے میں یہ تاثر نہیں دے سکتا کہ اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی، اور بھی جج تھے جنہوں نے اپنے نوٹ لکھے اور اختلاف کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کیس میں جج کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بھٹو کیس میں بینچ کا تناسب ایسا تھا کہ جج کی رائے بھی اہم تھی۔ .

دریں اثناء احمد رضا قصوری نے کہا کہ سابق جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں پورا واقعہ لکھا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ حصہ تلاش کریں اور عدالت کا وقت ضائع نہ کریں۔ قصوری نے کہا کہ کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اگر ان پر دباؤ ہوتا تو وہ استعفیٰ دے دیتے۔

چیف جسٹس نے قصوری سے کہا کہ عدالت کو نہ بتائیں کہ کیا پڑھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس انٹرویو میں مکمل کہانی نہیں ہے۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اصل پروگرام یوٹیوب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ متعلقہ چینل کا ڈیٹا کاپی کریں، پورا انٹرویو دیکھیں اور متعلقہ حصہ عدالت کو دیں، عدالت اب جوڈیشل اسسٹنٹ مخدوم علی خان کو سنے گی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف کے ساتھ زیادتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس میں سپریم کورٹ قصوروار ہے یا پراسیکیوشن اور اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ان کے خیال میں تاریخ کو درست کرنا چاہیے، کلنک ایک خاندان پر نہیں بلکہ اداروں پر بھی لگا ہے۔ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ وہ بالکل درست ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کے بعد اس کیس کی سماعت کی جائے؟ فاروق نائیک نے کہا کہ جہاں تک ان کی رائے کا تعلق ہے کیس کی جلد سماعت ہونی چاہیے۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ دو الیکشن گزر چکے ہیں۔

نائیک نے کہا کہ عدالت پہلے معاونین کو سنے، پھر اٹارنی جنرل، مجھے اور رضا ربانی کو سنا جائے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھنا شروع کردیا۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ رضا ربانی نے عدالت کو بتایا ہے کہ صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو زرداری کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ زاہد ابراہیم فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر کی نمائندگی کررہے ہیں، بھٹو ریفرنس کیس کی سماعت عام انتخابات کے بعد ہوگی۔

عدالت نے کہا کہ الیکشن کیسز سمیت دیگر کیسز سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نکتہ نظر
​جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلےکا جائزہ لےکر رائے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بینچ میں دیگر ججز بھی تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلاکر انکوائری شروع کریں؟ ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کرتو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں کیا قانونی سوال پوچھا گیا ہے؟

عدالت کے معاون وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ بھٹو کو چار تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے کہا میں نے دباؤمیں فیصلہ دیا: 
وکیل مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا ذوالفقارعلی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا عدالت کے سامنے سوال ذوالفقار بھٹو کی پھانسی پر عملدرآمد کا نہیں ہے، بدقمستی سے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی واپس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے معاملہ ایک دھبے کا ہے، ذوالفقارعلی بھٹو کو چار تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویومیں کہا کہ میں نے دباؤمیں فیصلہ دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا اس کیس میں عدالت نے کوئی فیصلہ کیا تو کیا اپنے ہر فیصلے پر یہی کرنا ہو گا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ایک قانونی سوال جو میں سمجھا ہوں کہ ذوالفقار بھٹو کیس کا فیصلہ غلط تھا، اس کیس میں صرف ایک جج کا انٹرویو آیا دیگر ججز بھی خاموش رہے۔ بھٹو کیس میں نظرثانی کا دائرہ اختیار استعمال ہو چکا، اب کیا طریقہ کار بچا ہے کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار ہو؟ 
چیف جسٹس نے کہا ہر فوجداری کیس میں جہاں سیاست ہو اور انصاف نہ ہو تو عدالت کو دوبارہ سننا چاہیے، آپ نے کہا یہ منفرد کیس ہے، باقی کیسز سے الگ عدالت اسے دیکھے۔جسٹس عیسیٰ نے کہا آپ نے کہا کہ اس وقت مارشل لاء تھا تو ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی لگادی گئی، آپ محنت کریں اور بتائیں کے یہ عدالت باقی کیسز کو دوبارہ کیوں نہیں کھول سکتی؟ صدر مملکت بھی باقی کیسز کے ریفرنس بھیجیں، اس کیس میں ایک جج کا انٹرویو ہے، باقی کیسز میں کچھ اور موجود ہو گا۔

مخدوم علی خان نے کہا فوجداری کیسز میں جہاں سیاست شامل ہو انصاف نہ ہو انہیں درست ہونا چاہیے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ذوالفقار بھٹو کیس میں نظرثانی کا دائرہ اختیار استعمال ہو چکا، اب کیا طریقہ کار بچا ہے کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار ہو؟ 

 سپریم کورٹ قصور وار ہے، یا پھر پراسیکیوشن اور اُس وقت کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر؟

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا اس میں سپریم کورٹ قصوروار ہے؟ یا پھر پراسیکیوشن اور اُس وقت کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر قصوروار ہے؟


سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں صدارتی ریفرنس پر سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں