کیتھولک ورلڈ آرڈر

اسلم اعوان

9 Feb, 2025 | 08:20 PM

Asaad Naqvi

عالمی استعماری قوتوں کی طرف سے فلسطینی سرزمین پہ صیہونی ریاست کے جبری قیام کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بدامنی نے ناقابل بیان المیوں کو جنم دینے کے باوجود پون صدی تک نوع انسانی کے اجتماعی شعور کو دھوکے میں رکھا لیکن آج کیتھولک مفادات کے تقاضوں نے صرف15 ماہ پہ محیط غزہ جیسی محدود جنگ کے ذریعے صیہونیت بارے پوری دنیا کا پرسپشن بدل دیا بلکہ وقت کی بے رحم گردشوں نے ’’ اعلان بلفور‘‘ کے پیچھے کارفرما اصل محرکات کو بھی عیاں کر دیا ۔

 امر واقعہ بھی یہی ہے کہ 1988 میں سوویت یونین کی تسخیر کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور ،امریکہ ، نے جس نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کا ناقوس بجایا وہ دراصل’’ کیتھولک ورلڈ آرڈر‘‘ تھا جس کی بازگشت ہمیں ، عراق پہ پہلے اور دوسرے امریکی حملہ میں سنائی دیتی رہی مگر عالمی ذرائع ابلاغ کے طلسماتی بیانیہ نے ہنرمندی کے ساتھ کیتھولک بالادستی کی پیچیدہ حرکیات کو التباسات کی دھند میں چھپا کرنوع انسانی کو جمہوریت ، انسانی حقوق اور آزادی اظہار جیسی بے معنی اصطلاحات کی فریب کاریوں میں مصروف رکھا تاہم پچھلے30سالوں میں مغربی طاقتوں نے  یہودیوں کی مہارتوں اور وسائل کو لیکر جس سرعت کے ساتھ مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کی، اس نے نہ صرف زمین کو فساد سے بھر دیا بلکہ خود عیسائی مملکتوں کو بھی فنا و بقا کے خط امتیاز پہ لا کھڑا کیا ، چنانچہ کیتھولک قوتیں ، بیت المقدس پہ حتمی اجارہ داری کے حصول کی خاطر یہودیوں اور مسلمانوں کو ارض فلسطین سے بےدخل کرنے کے فیصلہ کن مرحلہ تک آن پہنچی ہیں ، صدر ٹرمپ کا 20 جنوری کو صدارتی حلف اٹھاتے ہی غزہ کی پٹی کو’’ غیر معمولی مقام ‘‘ قرار دیکر وہاں سے مقامی مسلم آبادی کو مصر اور اردن کے اندر منتقل کرنے کا اعلان ، اسی راہ کا آخری سنگ میل دیکھائی دیتا ہے کیونکہ نصرانی منصوبہ سازوں نے 77 سالوں پہ محیط خونی کشمکش کے ذریعے عرب مملکتوں کو مضمحل اور فلسطین کی سرزمین کو یہودیوں کےلئے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ، اس لئے بیت المقدس کو کیتھولک چرچ کی تحویل میں لینے کا اس سے بہترین موقعہ پھر نہیں ملے گا ، چنانچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحیح ٹائم پہ غزہ پر قبضہ کرکے اسے کیتھولک چرچ کی ملکیت بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ۔

 بلاشبہ ٹرمپ انتظامیہ کا اجتماعی شعور سنجیدہ پالیسی کے جائزے سے لبریز ہے  جس نے عرب اسرائیل امن سازی کے پچھلی نصف صدی کی تمام مفروضہ بنیادوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا، ٹرمپ کی تجویز کا سب سے تباہ کن پہلو یہ ہے کہ وہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امریکہ ، اسرائیل کو ایک فوجی اڈے کے طور پہ لیکر مشرق وسطیٰ اور شاید اس سے بھی آگے کے علاقوں میں انتشار کی آگ پھیلانے کے لئے بے پناہ فوجی طاقت کے استعمال پہ تیار ہے ۔

 اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ’’ فلسطینی مسلمانوں کی جبری نقل مکانی نسلی تطہیر کے مترادف ہوگی، فلسطینیوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی  کمیٹی سے خطاب میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے  کہا کہ فلسطینی عوام کا ناقابل تنسیخ حق  ہے کہ وہ اپنی سرزمین میں انسانوں کی طرح زندگی بسر کریں ، یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کے درمیان روایتی دشمنی کی جدلیات سے ناواقف تجزیہ کار اگرچہ غزہ میں زمین پر امریکی فوجیوں کی امکانی موجودگی کو محال سمجھتے ہیں لیکن اس وقت بھی اسرائیل اور غزہ میں  امریکی فورسیسز موجود ہیں ۔
ہر چند کہ غزہ کو فلسطینیوں سے نسلی طور پر پاک کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف مزاحمت ضرور ہوگی لیکن مڈل ایسٹ کی حرکیات پہ نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی اسرائیلی فوج 15 ماہ کی لڑائی میں غزہ کی دو تہائی عمارتوں کو تباہ اور 61000 سے زیادہ انسانوں کو مار دینے کے باوجود حماس کی مزاحمت کچلنے میں ناکام کیوں رہی ؟ جنگ میں غیرمعمولی نقصان اٹھانے کے الرغم  حماس نے مزید اتنے ہی جنگجو بھرتی کر لئے،جتنے اس نے کھوئے ، یعنی گروپ نے اتنی تیزی کے ساتھ اپنے بنیادی ڈھانچے کی دوبارہ مرمت کیسے کر لی ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کوئی نہیں پوچھتا لیکن ہر شخص ان کا جواب دینے کے لئے تیار ہے۔

 امریکی ماہرین جانتے ہیں کہ متعدد ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ٹرمپ کی مرضی کے مطابق غزہ سے فلسطینیوں کی  بے دخلی مڈل ایسٹ میں امریکی مقاصد کے حصول کے عین مطابق ہو گی، غزہ پر امریکہ کا قبضہ نہ صرف خطے میں  کرسچن مفادات کی تکمیل کا ضامن ہو گا بلکہ یہ کیتھولک چرچ کے ازلی دشمن صیہونیوں کے مستقبل کو بھی تاریک بنا دے گا جو لوگ اِس وہم باطل میں مبتلا ہیں کہ ’’ فرنگ کی رگ جاں پنجہِ یہود میں ہے ‘‘  وہ غلطی پہ ہیں ، خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد کیتھولک چرچ نے بیت المقدس پہ حتمی تصرف قائم رکھنے کی خاطر براہ راست مسلمانوں سے ٹکرانے کی بجائے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کو ہتھیار بنا کر دونوں بڑے مذاہب کو باہم صف آرائی کر دیا ۔

 ابھی حال میں پتہ چلا ہے کہ پچھلے 40 سالوں میں USAID نے آزاد میڈیا کی تشکیل کے لئے دنیا بھر میں  6200صحافیوں کی تربیت،707 غیرسرکاری نیوز ایجنسیوں، 279 میڈیا سیکٹر اور سول سوسائٹی تنظیموں کی فعالیت پر اربوں ڈالرز خرچ کئے، امریکی امداد سے استوار ہونے والے اِسی ’’ آزادمیڈیا ‘‘ نے دنیا بھر میں غزہ کے فلسطینیوں پہ اسرائیلی مظالم کی تشہیر کے ذریعے نوع انسانی کو صہیونیت کے خلاف کھڑا کرکے اسرائیل بارے مغربی اقوام کا پرسپشن تبدیل کر دیا ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدرٹرمپ غزہ پہ قبضہ کی دھمکی دیکر حماس پر قابو پانے کے لیے  ایسی علاقائی ’’امن فوج ‘‘کی تشکیل چاہتے ہیں جس میں مڈل ایسٹ کے تمام مسلم ممالک شامل ہوں تاکہ فسلطینیی مزاحمت کو کند بنانے کے لئے عیسائیوں کی بجائے مسلم فورسیز کا استعمال کیا جائے ، اردن کے شاہ عبداللہ آئندہ ہفتے  امریکہ جانے والے ہیں ، وائٹ ہاوس کو امید ہے کہ بادشاہ غزہ کے فلسطینیوں کے قبول کرنے کے علاوہ حماس کے خاتمہ کے لئے علاقائی فورس بنانے کے منصوبہ سے اتفاق کر سکتے ہیں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ غزہ پر قبضہ اسرائیل کی ضرورت کبھی نہیں تھا ، قبل ازیں اسرائیل نے جب غزہ میں غیر قانونی بستیاں تعمیر کیں تو سابق وزیر اعظم ایریل شیرون نے 2005 میں انہیں وہاں سے یہ کہہ کر ہٹا لیا کہ یہودی کبھی بھی غزہ میں اکثریت نہیں بن سکتے ۔ غزہ جنگ کے آغاز پر  امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس کی لیک ہونے والی مشاورت میں فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے مصر کے صحرائے سینا کی طرف دھکیلنے  کی تجویز ملتی ہے ۔

 مغربی میڈیا غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کے ارادوں کو امریکی اشرافیہ کے حقیر مفادات کے ساتھ جوڑ کر اسلام اور عیسائیت جیسے بڑے مذاہب کے درمیان بیت المقدس پر بنیادی تنازعہ کو شخصی علائم میں چھپانے کی کوشش بھی کر رہا ہے ، میڈیا میں مارچ 2024 کی ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کی اس تجویز کی بازگشت پھر سنائی دینے لگی ہے کہ ’’ غزہ کی واٹر فرنٹ پراپرٹی کافی قیمتی ہو سکتی ہے چنانچہ اسرائیل کو غزہ سے فلسطینی آبادی کو ہٹا کر پٹی کو صاف کرنا چاہیے ،انہوں نے مزید کہا ، آبادی کو مصر یا جنوبی اسرائیل کے صحرائے نقب (نیگیف) میں لے جایا جا سکتا ہے ۔

 تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کشنر رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ہیں جنہیں ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران  اسرائیل، فلسطین ’’امن عمل‘‘ کے انتظام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔ اپنے حالیہ خطاب کے دوران، ٹرمپ نے کشنر کی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’ میرے خیال میں غزہ کی پٹی کی صلاحیت ناقابل یقین ہے ،ہم غزہ کو ’’ ناقابل یقین ‘‘جگہ بنائیں گے ، مجھے لگتا ہے کہ پوری دنیا کے نمائندے، وہاں ہوں گے اور وہ وہاں رہیں گے‘‘ ۔ امریکی سٹیٹ کرافٹ کی باریکیوں سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ حماس کی تخلیق اور اس کی مزاحمتی صلاحیت میں اچانک غیرمعمولی اضافہ سے واضح ہے کہ حماس کا خاتمہ امریکہ مقاصد میں شامل نہیں بلکہ حماس جیسی مزاحمتی تحریکیں دراصل مڈل ایسٹ میں امریکی مفادات کے حصول کا زینہ بنتی ہیں ۔

 امریکیوں نے ہمیشہ فلسطین بارے ایسے ہی ناقابل فہم دعوے کئے ، غزہ کے مکینوں کو نکالنے بارے اسرائیلی خود ٹریپ ہو کر ٹرمپ کے اعلانات کا خیرمقدم کر رہے ہیں حالانکہ ٹرمپ نے جنگ بندی بھی اپنے مفادات کے پیش نظر کرائی، جو کہ بہت سے اسرائیلی بالکل نہیں چاہتے تھے ،  وہ غزہ کو بغیر کسی جنگ کے یہودیوں اور مسلمانوں سے خالی کرانے کی راہیں استوارکر چکے ہیں۔ امریکی جانتے ہیں ’’مزاحمت‘‘  کا نظریہ حماس سے پرانا ہے، حماس اس کا محض تازہ ترین مظہر ہے،جس طرح جہاد کے قدیم نظریہ کو امریکہ نے پہلے سوویت روس اور پھر داعش کی شکل میں مڈل ایسٹ کی استبدادی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا ، اسی طرح فلسطینی مزاحمتی جنگووں کو مڈل ایسٹ میں انتشار برپا رکھنے اور اسرائیلیوں کو تھکا کر مایوس کرنے کے لئے بروے کار لایا جائے گا ۔

مزیدخبریں