خواتین ملازمین کوہراساں کرنے پرسرکاری افسران کی شامت آگئی

9 Feb, 2021 | 01:14 PM

M .SAJID .KHAN

(سٹی42)دیکھتا جا شرماتا جا! سرکاری دفاتر ہراسانی کے مرکز ۔ افسروں کے ہاتھوں ماتحت خواتین ملازمین غیر محفوظ۔ الزامات ثابت ہونے پر 12 بڑے افسران برطرف۔ تنگ کرنے والوں میں گریڈ 20 کے سورما شامل ۔زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر کا نام بھی سر فہرست ۔ خاتون محتسب کی رپورٹ جاری ۔نامناسب مطالبات نا ماننے پر خواتین کو گالم گلوچ اور سخت ڈیوٹی کا سامنا کرنا پڑا، ڈے کیئر تک بند کردیا گیا ۔

تفصیلات کے مطابق 2020 میں ہراسگی کیسسز میں اضافہ ہوا، زیادہ تر ہراسگی شکایات سرکاری دفاتر سے درج کروائی گئیں، خاتون محتسب نے ہراسانگی ایکٹ 2010  کے تحت 12 سرکاری افسران کو ملازمت سے برطرفی کی سزا سنائی۔ موصولہ مقدمات کے تمام قانونی پہلوؤں کی جانچ، دونوں فریقین کی متعدد سماعتوں اور تفصیلی انکوائری کرنے کے بعد  سال دو ہزاربیس میں بارہ افسران/عہدیداروں کو انکی نوکری سے فارغ کرنے کا حکم دیا گیا۔

سٹاک ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں کام کرنے والی لیڈی ویٹرنری افسرکی طرف سے گریڈ 20 کے افسر کے خلاف براہ راست درخواست خاتون محتسب رخسانہ گیلانی کو موصول ہوئی تھی ،ملزم کی عادت تھی کہ وہ اپنی ماتحت خاتون عملہ کے ساتھ گالی گلوچ کرتا تھا ، خاتون نے درخواست لکھا ایک سرکاری تقریب میں متعلقہ افسر نے خواتین کو حکم دیا کہ وہ اچھی طرح سے تیارہو کر آئیں تاکہ وزراء اور وی آئی پی انکو دیکھ کر خوش ہوں۔

خواتین عملہ نے اس کے احکامات کو ماننے سے انکار کردیا تو خواتین کو تنگ کرنے کے لئے اس نے ڈے کیئر سنٹر بند کر دیا،سٹاک ڈپارٹمنٹ کے افسر نے ایک اور ماتحت خاتون کو متوقع ڈلیوری سے محض چند ہفتوں قبل سخت ڈیوٹی دی جسکی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہوئی اور اسکا اسقاط حمل ہوا۔دو لیڈی افسران کی شکایت پر انکوائری کی گئی۔

معاملات کی جانچ پڑتال اور دونوں فریقین سے موصول ہونے والے تمام شواہد کی جانچ پڑتال کے بعد افسر کو ہراساں کرنے کا قصوروار پایا گیا، بعد ازاں سٹاک پنجاب کے 20 گریڈ کے افسر کو نوکری سے فارغ کرنے کا حکم سنادیا، ڈائریکٹر محکمہ زراعت پنجاب کو خاتون محتسب نے ہراسگی کیس میں جبری ملازمت سے ریٹائر کردیا۔ ملزم کو حال ہی میں سال 2020 میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے ترقی دی گئی تھی۔

محکمہ زراعت کی چار خواتین کی جانب سے متعلقہ ڈائریکٹر کے خلاف ہراسگی کی درخواست دی گئی تھی ۔ ملزم خاتون افسروں کے معاملات میں بے جا دلچسپی لیتا اور مداخلت کرتا تھا۔ ٹیلیفون کے ذریعے مسلسل خواتین کورابطہ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ لاک ڈاؤن کے دوران اس نے ضلعی دفاتر کی خواتین کو اپنے دفتر میں میٹنگ میں شرکت کے لئے بلایا جسکا دفتری معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس میٹنگ کا اہتمام صرف چند منتخب خواتین کے لئے کیا گیا تھا وہ انھیں "پیاری لڑکی" "اینگری ینگ بیچلر" کہہ کر پکارتا تھا۔

اس کے بعد متعلقہ افسر نے تمام نوجوان خواتین کو رات کے قیام کے ساتھ مری میں اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی۔ تمام خواتین کو اس کے ذاتی واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔ واٹس ایپ پر غیر اخلاقی گفتگو ، معلومات اور لطیفے شیئر کیے گئے اور ہدایت کی گئی کہ کوئی بھی گروپ چھوڑ نہیں سکتا۔

جب تمام خواتین نے اسکی بات ماننے سے انکار کردیا تو اس نے دھمکی دی کہ ان کی اے سی آرخراب کردے گا۔ چار خواتین نے ملزم کے خلاف مشترکہ طور پر شکایت درج کروائی اور دستاویزات ، آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعہ اپنے الزامات ثابت کردیئے ۔ تمام قانونی چارہ جوئی کے بعد خاتون محتسب پنجاب نے ملزم کو مجرم قرار دیا اور اسے جبری ریٹائرمنٹ کی سزا سنائی۔

مزیدخبریں