آٹا، گھی اور بیوروکریسی

9 Feb, 2020 | 10:02 AM

قیصر کھوکھر

(قیصر کھوکھر) پنجاب میں اس وقت آٹے ، گھی اور چینی کا بحران ہے اور پنجاب کی ساری بیوروکریسی اس بحران سے نمٹنے پر لگی ہوئی ہے, اشیاءکی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں اور ضلعی انتظامیہ اس بحران کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔

 اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول رکھنا اور پرائس کنٹرول ایکٹ پر عملدرآمد کرنا ضلعی حکومت کا کام ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں اشیاءکی قیمتوں کا تعین بھی ضلعی انتظامیہ اور ڈی سی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان قیمتوں میں اعتدال رکھنا اور ان کے نوٹیفکیشن پر عمل کرانا اور اشیاءمیں قیمتوں کو چیک کرنا بھی ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس سلسلہ میں صوبے میں باقاعدہ طور پر ایک محکمہ بھی قائم ہے جو کہ قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کا کام کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہماری انتظامیہ یہ کام کرنے اور حکومت کی اس سلسلہ میں رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے، اشیاءکی قیمتوں نے عوام کی زندگی کو دو بھر کر دیا ہے۔

 قیمتوں کو مانیٹر کرنے والے ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے اور ذخیرہ اندوز اور گراں فروش مضبوط ہوتے چلے گئے ،جس سے ایک عام آدمی کےلئے زندگی گزارنا مشکل تر ہوتا گیا اور حکومت نام کی کوئی چیزنہ رہی۔ حتیٰ کہ لوگ مہنگائی کیخلاف سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو گئے اور بیورو کریسی ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھی رہی۔ لاہور اور پنجاب میں یک دم آٹے، گندم اور گھی کا بحران پیدا ہوگیا اور حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا پڑ گیا۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں روپے کی قیمت گرنے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے پاکستان میں گندم کی قیمتیں بین الاقوامی سطح کے مقابلے میں کم ہو گئیں جس کی وجہ سے گندم سنٹرل ایشیا اور افغانستان سمگل ہونے لگی اور پاکستان خصوصاَ پنجاب میں آٹے کا ایک بحران پیدا ہو گیا۔ پنجاب اور لاہور میں گندم کی عدم دستیابی سے مل مالکان اور آٹا چکی والوں نے من مانی شروع کر دی اور آٹے کا ایک مصنوعی بحران پیدا کر دیا گیاحالانکہ پنجاب میں گندم پنجاب کے محکمہ فوڈ کے پاس وافر مقدار میں موجود ہے اور سیکرٹری فوڈپنجاب وقاص علی محمود کا دعویٰ ہے کہ پنجاب کے گوداموں میں گندم کی کوئی کمی نہ ہے۔

 جب مل مالکان اور آٹا چکی نے اپنی من پسند قیمتیں صارفین سے وصول کرنا شروع کر دیں تو ضلعی انتظامیہ نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا اور جب یہ بحران شدت اختیار کر گیا تو پنجاب حکومت کو مداخلت کرنا پڑ گئی اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان نے اس حوالے سے اجلاس شروع کئے تو ضلعی انتظامیہ حرکت میں آ گئی اور ضلعی انتظامیہ نے گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں ۔

 گھی اس وقت بیرون ملک سے درآمد شدہ اشیاءسے تیار کیا جاتاہے جس پر بھاری ڈیوٹی عائد ہے حکومت پاکستان یہ ڈیوٹی کم کرنے پر تیار نہیں ہے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے اور روپے کی قیمت کم ہونے سے گھی افغانستان سمگل ہونے لگا ہے۔ گندم پاکستان میں وافر مقدار میں پیدا کی جا رہی ہے لیکن اس کا فائدہ نہ تو کسانوں کو ہو رہا ہے اور نہ ہی ایک عام صارف کو اس کا فائدہ ہو پا رہا ہے۔ کسان اور صارف دونوں ہی پس رہے ہیں اور اس سارے بلیک میلنگ کا فائدہ مڈل مین، ذخیرہ اندوز اور گراں فروش حاصل کر رہے ہیں۔

اس کی اصل ذمہ دار حکومت ہے لیکن ان اشیاءکو کنٹرول کرنے کےلئے ایک ٹھوس اور مضبوط میکانزم کھڑا نہیں کر سکی اور ضلعی انتظامیہ کو فعال نہیں کر سکی ہے۔ آئے روز عوام کو مصنوعی مہنگائی اور اشیاء کی عدم دستیابی کے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ کا کام یہ نہیں کہ وہ اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کریں یہ کام محکمہ انڈسٹریز اور ضلعی انتظامیہ کا ہے کہ وہ پرائس مجسٹریٹوں کو متحرک رکھیں ۔ پنجاب اور لاہور میں صارفین کےلئے کوئی نہ کوئی بحران موجود رہتا ہے اور صوبائی حکومت کو اس حوالے سے مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ جب تک وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔

 اس لئے حکومت پنجاب کو لانگ ٹرم پلاننگ، اداروں کو مضبوط کرنے اور انہیں اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئے روز کے اس بحران سے نمٹا جا سکے۔ آخر یہ بحران پاکستان میں ہی پیدا کیوں ہوتے ہیں، ان بحرانوں سے نمٹنے کےلئے اداروں کو مضبوط کرنا اور گراں فروشوں، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف مستقل بنیادوں پر ایکشن ضروری ہے اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس اور ضلعی انتظامیہ اور محکمہ انڈسٹریز کو 24 بائی سیون متحرک رہنے کی ضرورت ہے تاکہ اس مافیا کو شروع سے ہی ختم کر دیا جائے۔ بحران پیدا ہونے سے براہ راست عوام میںحکومت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے یہ بھی پتہ چلانا چاہئے کہ کون ساطبقہ حکومتی ساکھ کو خراب کرنے کیلئے کوشاں ہے۔

مزیدخبریں