رثائی ادب کی پہچان ،خدائے سخن میر ببر علی انیس کا آج 150 واں یوم وفات منایا جا رہا ہے
میر ببر علی انیس کا شمار اردو کے عظیم مرثیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔میدان شاعری میں میر انیس نے مرثیہ نگاری کو عروج پر پہنچایا ، میر انیس کو اردو مرثیہ نگاری کا بادشاہ کہا جاتا ہے ۔رثائی ادب میں میر انیس کا نام ہمیشہ چمکتا رہے گا کیونکہ جو مقام رثائی ادب کو میر انیس نے دلایا وہ کوئی اور نہیں دلا سکا۔ جس طرح سودا قصیدہ گوئی میں میر غزل گوئی میں اور میر حسن مثنوی نگاری میں بے مثل ہیں اسی طرح میر انیس مرثیہ نگاری میں یکتا ہیں
اردو ادب سے دلچسپی بلخصوص شاعری سے شغف ان کو وراثت میں ملا، ان کے والد میر خلیق خود ایک مرثیہ نگار تھے۔ یہی نہیں بلکہ میر انیس کے دادا میر حسن (مصنف مثنوی سحر البیان) بھی ایک عظیم شاعر تھے، ، میر حسن اردو ادب کےسب سے بڑے مثنوی نگار تسلیم کیے جاتے ہیں جن کی مہارت اور مساعی کی مثال آج تک دی جاتی ہے ۔
میر انیس محض ۱۳ سال کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا پھر والد میر خلیق کے سمجھانے پر مرثیہ نگاری میں قدم رکھا اور پھر مرثیہ نگاری میں انہوں نے ایسی کامیابی حاصل کی کہ ان کے والد جو خود ایک مرثیہ نگار تھے وہ اور سارے بڑے بڑے مرثیہ نگار ان کے سامنے دھندلے نظر آنے لگے۔
میر انیس کی مرثیہ نگاری میں جہاں نئے موضوعات کو جگہ ملی وہیں میدان رثا میں انسانی جذبات و احساسات،انسانی نفسیات، زندگی اور موت، جنگ و صلح، فتح اور شکست ، محبت و و نفرت بھی خوبصورت انداز میں اپنا مقام پاتے ہیں ۔میر انیس نے واقعاتِ کربلا کی دردناکی متنوع انداز میں پیش کیا اور منفرد لہجہ و پیرائے کو اپنا یا۔
عموما شاعری میں منظر نگاری کو اتنی وسعت نہیں مل پاتی جتنی میر انیس نے اپنے مرثیوں میں منْظر نگاری کے ذریعے مناظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے قاری کو اس طرح متوجہ کیا کہ قاری خود کو میدان کربلا میں محسوس کرتا ہے
مرثیہ کا پہلا جزو چہرہ ہے۔ اس میں شاعر مختلف تمہیدی موضوعات کو اختیار کرتا ہے۔ میر انیس کے مرثیوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے مرثیوں کا آغاز بعض مقام پر دعا سے کیا ہے۔ اس سے میر انیس کے مرثیوں کو اور زیادہ بلندی ملی۔انہوں نے سراپا ، کردار اور دیگر اجزا مثلاً رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت اور بین کو بھی موثر انداز میں استعمال میں پیش کیا
میر انیس کو لفظوں پر مہارت حاصل تھی ، یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا میر انیس الفاظ کے جادوگر تھے ۔ الفاظ کی کاری گری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے میر انیس نے تشبیہات و استعارات کا بھی استعمال بھی بہت دلکش انداز میں کیا ہے۔ ان کی تشبیہوں میں نیچرل پن کا احساس ہوتا ہے۔ ۔
انیس نے جس وقت مرثیے کی دنیا میں قدم رکھا اس وقت لکھنو میں لفظی اور تصنع پر زیادہ زور تھا اس ماحول میں انیس نے مرثیہ گوئی شروع کی اور دہلی والوں کی اس کہاوت کو غلط ثابت کر دیا کہ ”بگڑا شاعر مرثیہ گو“
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں
کانٹوں کو نزاکت میں گل ِ تر سے ملا دوں
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
انکے مرثیوں میں مختلف قسم کے مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ آج بھی اردو مرثیے کا ذکر آئے تو خدائے سخن میر انیس کا نام سر فہرست نظر آتا ہے ۔محسوس ہوتا ہے کہ مرثیہ اور میر انیس آپس میں لازم و ملزوم ہیں جنھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایک بغیر دوسرے کو صحیح معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے
میر انیس اپنی قادرالکلامی سے اسے اتنا آسان کردیتے ہیں جن میں فطری بے ساختگی اور حسن ترتیب ہے ۔انیس کے مرثیوں میں کہانی ،بیانیہ ،پیکر تراشی ،منظر کشی اور فصاحت وبلاغت کے اوقاف و رموز کے ساتھ ساتھ آئینہ فطرت ،جمالیاتی حسن اور معنویت موجود ہے ۔ ۔تشبیہات واستعارات میں ان کو مہارت حاصل ہے
نمل ہوا جنگ کو اللہ کے پیارے نکلے
ائے فلک دیکھ زمین پر بھی ستارے نکلے
اسی طرح جب میر انیس نے حضر ت امام حسینؑ کی شہادت کے موقع پر مرثیہ لکھتے ہوئے لکھا کہ
آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے
تو نواب شیفتہ خان نے کہا انیس نے ناحق مرثیہ لکھا، یہی ایک مصرعہ بجائے خود ایک مرثیہ کے برابر تھا
1874 ء میں لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا۔ انہوں نے تقریباً 200 مرثئے اور 125 سلام لکھے، اس کے علاوہ تقریباً 600 رباعیاں بھی ان کی یادگار ہیں۔