سٹی42: انسٹی ٹیوٹ آف آپتھلمولوجی / کالج آف آپتھلمولوجی اینڈ الائیڈ وژن سائنسز (COAVS)، میو ہسپتال نے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے بچوں میں نابینا پن کی بیماری ROP کی تشخیص اور علاج کا آغاز کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق میو ہسپتال نے بچوں میں نابینا پن کی بیماری ROP کی جلد تشخیص اور علاج کے لیے ٹیلی میڈیسن کا آغاز کیا ہے۔ ROP قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں نابینا پن کا ایک بڑا سبب ہے، خاص طور پر جن بچوں کا حمل کا دورانیہ 32 ہفتے سے کم ہو، وزن دو کلو سے کم ہو، یا آکسیجن لگنے کی ضرورت ہو۔اس بیماری سے بچاو کے لیے بچے کو پیدائش کے بعد چار ہفتوں کے اندر ماہر امراض چشم سے معائنہ کروانا ضروری ہے۔ ٹیلی میڈیسن کے ذریعے، میو ہسپتال کے ماہرین چار سرکاری ہسپتالوں (شیخوپورہ، مریدکے، شرکپور، اور ننکانہ Sahib) میں بچوں کی اسکریننگ کریں گے اور والدین کو ماہر امراض چشم مشورہ دیں گے۔بروقت تشخیص اور علاج سے نابینا پن سے بچا جا سکتا ہے اور بچے کو ایک روشن مستقبل کی امید دی جا سکتی ہے۔
پروفیسر کلئیر گلبرٹ, پروفیسر آف انٹرنیشنل آئی ہیلتھ لندن سکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن, یونیورسٹی آف لندن نے ملکی رجسٹریشن برائے ROP نابینا بچے،؛ اور کامیاب ROP پروگرام کے لئے اہم اقدامات پر روشنی ڈالی.
کالج آف آفتھالمولوجی اینڈ الائیڈ وژن سائنسز کے پرنسپل پروفیسر محمدمعین نے کہا کہ ٹیلی میڈیسن بچوں کی نابینا پن کے خطرے کو کم کرنے میں ایک انقلابی قدم ہے۔ اس کے ذریعے، ہم دور دراز کے علاقوں کے بچوں تک اپنی خدمات پہنچا سکتے ہیں اور انہیں بروقت علاج فراہم کر سکتے ہیں۔
وزیر صحت پنجاب پروفیسر جاوید اکرم نے اس اقدام کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ یہ صحت کے شعبے میں ایک اہم پیشرفت ہے۔اس اقدام کے فوائدپر روشنی ڈالتے ہوےکہا کہ میو ہسپتال کا یہ اقدام صحت کے شعبے میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ اس سے دور دراز کے علاقوں کے بچوں کو بروقت علاج کی سہولت میسر آئے گی۔ٹیلی میڈیسن ایک امید افزا ٹیکنالوجی ہے جو صحت کی دیکھ بھال کو سب کے لئے قابل رسائی بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔ میو ہسپتال کا یہ اقدام ایک مثالی اقدام ہے جس کی دوسرے ہسپتالوں کو بھی پیروی کرنی چاہیے۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ہمیں خوشی ہے کہ ہم ٹیلی میڈیسن کے ذریعے بچوں میں نابینا پن کی بیماری ROP کی تشخیص اور علاج کا آغاز کر رہے ہیں۔ یہ ایک انقلابی قدم ہے جو دور دراز کے علاقوں کے بچوں کے لیے زندگی بدل سکتا ہے۔
پروفیسر ہارون حامد نے بتایا کہ کس طرح ROP اندھاپن کو محدود کرنے میں ایک ماہر اطفال ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں.
پروفیسر امرائٹس ڈاکٹر اسد اسلم نے صوبائی سطح پر ROP سے متعلق دو دہائیوں سے ہونے والے اقدامات، مشکلات اور ان کے حل پر روشنی ڈالتے ہوئے جدید لائحہ عمل کو سراہا اور جدید طریقوں کو خوش آئند قرار دیا.
ڈاکٹر قرۃالعین نے کہا کہ یونیسف پاکستان میو ہسپتال کے اس اقدام کی حمایت کرتا ہے۔ یہ ایک امید افزا اقدام ہے جو بچوں میں نابینا پن کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے۔
اس موقع پر پروفیسر سبیحہ قیوم، پروفیسر ہارون حامد، پروفیسر افتخار اعجاز، پروفیسر اکمل لئیق چشتی، پروفیسر آغا شبیر، پروفیسر سید رضا علی شاہ، پروفیسر نعیم افضل، پروفیسر سردار علی ایاز صادق، ڈاکٹر خرم مرزا چیف اور ڈیپٹی چیف نرسنگ سپرنٹنڈنٹس اور دیگر نے شرکت کی۔