پاکستان اپنے تمام قرضے بروقت ادا کرے گا، گورنر اسٹیٹ بینک

9 Dec, 2022 | 11:55 AM

ویب ڈیسک: گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے تمام قرضے بروقت ادا کرے گا اور اگلے 7 مہینوں کے دوران درحقیقت صرف 4.7 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں، قرضوں کی واپسی کے لیے جو زرمبادلہ اکٹھا کیا جاچکا، وہ ہماری فوری ضرورت سے زیادہ ہے، توقع ہے کہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے۔

اسٹیٹ بینک پوڈکاسٹ سیریز کی تازہ ترین قسط میں گورنر اسٹیٹ بینک نے بین الاقوامی مالی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی ملکی صلاحیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے بیرونی کھاتے کی کمزوریوں کے متعلق خدشات زائل کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ عالمی سطح کے اہم چیلنجوں میں یوکرین جنگ، اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں تاریخی اضافہ اور مرکزی بینکوں کی سخت زری پالیسی شامل ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی مالی منڈیوں سے  فنڈز جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ملکی محاذ پر معیشت سیلاب سے متاثر ہوئی، جس نے پاکستان کے لیے خاصے چیلنجز پیدا کیے۔

جمیل احمد نے کہا کہ مالی سال کی باقی مدت میں قابل ادائیگی واجبات کی مالیت تقریباً 4.7 ارب ڈالر بنتی ہے، ان میں 1.1ارب ڈالر کے کمرشل قرضے بھی شامل ہیں جو بیرونی بینکوں کو ادا کیے جانے ہیں جبکہ باقی 3.6 ارب ڈالر کثیر فریقی قرضوں پر مشتمل ہیں۔ پاکستان کو 4 ارب ڈالر کی زرمبادلہ رقوم (علاوہ مذکورہ 4ارب ڈالر کے رول اوور) کے موصول ہو چکی ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ بحیثیت مجموعی صورت حال چیلنجنگ ہے، تاہم اسٹیٹ بینک اور حکومتِ پاکستان صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 2023ء میں بیرونی اسٹیک ہولڈرز کو تقریباً 33 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، جن میں جاری کھاتے کی مد میں 10ارب ڈالر اور قرضوں کی واپسی کی مد میں 23 ارب ڈالر شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 23 ارب ڈالر کے قابل ادائیگی بیرونی قرضوں میں سے پاکستان پہلے ہی 6 ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے واپس کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ متعلقہ ممالک کے تعاون سے 4 ارب ڈالر کے دو طرفہ قرضوں کو رول اوور کر دیا گیا ہے، مزید 8.3 ارب ڈالر کے میچورنگ واجبات کے بھی رول اوور ہونے کی توقع ہے کیونکہ مذاکرات جاری ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ملک کی 10 فیصد سے بھی کم درآمدات اس وقت انتظامی کنٹرول کے تحت ہیں، یہ تمام پابندیاں عارضی ہیں اور بتدریج ختم کر دی جائیں گی۔ پٹرولیم اور دوائیں اسٹیٹ بینک کے ترجیحی شعبوں میں شامل ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات یا دواسازی کے شعبے سے متعلق خام مال کی درآمد پر قطعی کوئی پابندی نہیں۔

مزیدخبریں