(قیصر کھوکھر) پنجاب حکومت اس وقت بغیر کسی سمت کے چل رہی ہے اور بیوروکریسی مکمل طور پر کنفیوژ ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔ بیوروکریسی کسی کے کنٹرول میں نہیں ۔ حکومت اوپن ڈور سمیت کسی بھی حکومتی پالیسی پر ابھی تک بیوروکریسی سے عملدرآمد نہیں کرو ا سکی ہے ۔ عوام کو پنجاب کے وزراءکے ناموں تک کا پتہ نہیں کہ کون کون صوبائی وزیر ہے۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اپنی گفتگو کا آغاز عمران خان سے کرتے ہیں اور ختم بھی عمران خان پر کرتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ ہر طرف بنی گالہ کی جانب دیکھتے ہیں کہ کیا حکم آتا ہے اور کیا لائن آف ایکشن آتی ہے جس پر عمل کیا جائے۔ ان کا اپنا کوئی وژن یا سوچ سرے سے موجود ہی نہیں ۔ وہ پورے پنجاب کو صرف ڈی جی خان سمجھتے ہیں اور تونسہ اور ڈی جی خان کے ہی صرف کام ہو رہے ہیں اور جس کے نام کے ساتھ بلوچ یا بزدار لکھا ہوتا ہے اسے وزیر اعلیٰ آفس میںداخل ہونے دیا جاتا ہے۔ پنجاب حکومت اپنا کوئی وژن اور پالیسی یا سمت عوام یا بیوروکریسی کو ابھی تک نہیں دے سکی۔ پنجاب حکومت نے افسران اور سیکرٹری اور فیلڈ افسران کو اوپن ڈور پالیسی کا ایک وژن دیا ہے لیکن اس حکومتی پالیسی پر کسی بھی سیکرٹری، افسر یا فیلڈ افسران نے عمل نہیں کیا ۔
عوام بے چارے در بدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، ایک ارب درخت ، جنوبی پنجاب کا ایک الگ صوبہ دیں گے ،لیکن ابھی تک آن گراؤنڈ کچھ بھی نہیں ہو سکا ۔ تمام محکموں کے ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگایا گیا ہے۔ تعلیم کے بجٹ سے بھی بھاری کٹوتی کی گئی ہے۔ محکمہ ہائیر ایجوکیشن کی صوبے میں دس یونیورسٹیوں کو بلڈنگ بنانے کا منصوبہ بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے التوا کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ اس سال کوئی نئی یوینورسٹی نہیں بن سکی ۔ سو دن کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت نے نیا بجٹ دے دیا ہے لیکن اس بجٹ میں عوام کے لئے کوئی ریلیف نہیں رکھا گیا ۔ سو دن کا ایجنڈا کہیں بھی بجٹ اور آن گراؤنڈ نظر نہیں آ رہا ۔ ابھی تک کسی بڑے منصوبے کا پی سی ون ہی تیار نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی بیوروکریسی کو کوئی خاص ہدایات
ملی ہیں۔ بیوروکریسی مکمل طور پر خاموش اور کنفیوژ ہے ۔ تبدیلی کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ہے لوگ آواز اٹھا رہے ہیں کہ تبدیلی کہاں ہے اور جس تبدیلی کے نام پر عوام نے ووٹ دیئے تھے وہ پی ٹی آئی کی قیادت کہاں ہے ۔ حکومت اپنا ٹریک کھو چکی ہے ۔ آن گراﺅنڈ کچھ بھی نہیں، بیوروکریسی کے کام کا بھی ابھی تک تعین نہیں ہو سکا ہے کہ بیوروکریسی نے کیا کیا کرنا ہے اور کیا پالیسی بنانی ہے۔ اور کس سمت سے حکم لینا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت جیلوں میں برابری کی سہولتوں کے اعلان پر بھی عمل نہیں کر رہی ۔ بااثر قیدیوں اورحوالاتیوں کو جیلوں میں بھی وی آئی پی سہولتیں حاصل ہیں۔ چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر ابھی تک اپنی ٹیم بھی نہیں بنا سکے ہیں ۔ نگران دور کے سیکرٹریوں اور کمشنرز و ڈی سی سے کام چلایا جا رہا ہے۔ کے پی کے ماڈل کا پولیس نظام نافذ نہیں ہو سکا ہے۔
تھانوں میں عوام آج بھی رسوا ہو رہے ہیں اور دیہی تھانوں میں حالت ناگفتہ بہ ہے۔ جہاں پر تھانے عقوبت خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ابھی تک نہ تو تھانہ کلچر بدلا اور نہ ہی پٹواریوں سے عوام کو نجات مل سکی ہے۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ اور اضلاع کے ڈی سی اور ڈی پی او آفس عوام کے لئے نو گو ایریا زبن چکے ہیں جہاں پر ڈی پی او اور ڈی سی اجلاسوں کے بہانے دفاتر سے آﺅٹ ہوتے ہیں ۔ اگر یہ افسران دفاتر میں موجود ہوں تو ان کے دفاتر کے باہر بیٹھے دربان ان افسران سے عوام کو ملنے ہی نہیں دیتے ۔ا بھی تک یہ ہی طے نہیں ہو سکا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ کون ہے؟ کون حکومت چلا رہا ہے اور کس کا حکم چلتا ہے ؟کس کے حکم پر ٹرانسفر پوسٹنگ سمیت بڑے بڑے فیصلے ہو رہے ہیں؟۔ آن گراﺅنڈ کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے ۔ ترقیاتی کام سست روی کا شکا رہیں۔ ٹیکس کی وصولی کا ٹارگٹ بھی پورا نہیں ہو پا رہا ۔
ابھی سے یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ حکومت کچھ ڈیلیور بھی کر سکے گی یا کہ نہیں، کیونکہ پی ٹی آئی حکومت کا وزیراعلیٰ بنی گالہ کی جانب دیکھ رہا ہے۔ عمران خان وفاق کو بھی چلا رہے ہیں اور کئی بار وہ لاہور آکر پنجاب کابینہ کے اجلاس کی بھی صدارت کر چکے ہیں جہاں پر وہ پنجاب وزراءاور افسر شاہی کو براہ راست ہدایات دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ خود پنجاب کے وزراءکی کارکردگی مانیٹر کرر ہے ہوتے ہیں ۔ابھی تک پی ٹی آئی کے حلقے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا ایک اچھا فیس ہی عوام میں متعارف نہیں کر ا سکے ہیں۔ بار بار وزیر اعلیٰ کو اسلام آباد بلانا اور مختلف ایشوز پر باز پرس کرنے سے ایک تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ عمران خان کی نظر میں پنجاب میں سب اچھا نہیں۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب کی حکومت کی بنیاد پر اپنی ایک ساکھ بنائی تھی اور عوام سے ووٹ حاصل کئے تھے۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت پنجاب میں ایک ووٹ بینک ابھی تک تیار نہیں کر سکی ہے اور اگر پنجاب حکومت ناکام ہو جاتی ہے تو پی ٹی آئی کے موجودہ ووٹ بینک کو شدید دھچکا لگے گا اور اس کی حکومت جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔