اویس کیانی: وفاقی کابینہ کی جانب سے پاکستان کی پہلی میوزک پالیسی منظور کرلی گئی۔ وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت اجلاس میں کابینہ نے ملک کی پہلی میوزک پالیسی کی منظوری دی۔
یاد رہے کہ 1970 کے بعد سے اب تک میوزک کے شعبے میں قانونی، انتظامی یا پالیسی لیول کی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکی تھی۔ وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے فلم اور ڈرامہ کی صنعت کے ساتھ میوزک انڈسٹری کی بحالی اور ترقی کے لئے پالیسی ڈرافٹ تیار کیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ میوزک پالیسی کے تحت مراعات اور سہولیات سے میوزک انڈسٹری کو نئی زندگی ملے گی۔ نئی میوزک پالیسی سے پائیریسی، کاپی رائیٹس سمیت میوزک انڈسٹری کو درپیش دیگر مسائل حل ہوجائیں گے۔ پبلک پرفارمنس، پروڈکشن، ڈسٹری بیوشن، ایڈیپٹیشن، ڈیوریشن ، مکینیکل ، کمیونیکیشن رائیٹس کو قانونی ڈھانچے میں لایاجارہا ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ ان اقدامات میں یوزرز اینڈ لائیسنسز کا مسئلہ بھی حل ہوگا جس سے میوزک انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ مناپلائزیشن کے خاتمے کے ساتھ ساتھ میوزک ورکرز کے بنیادی قانونی حقوق کا تحفظ ہوگا۔ کاپی رائٹ سمیت میوزک سٹیک ہولڈرز کو درپیش تمام مسائل اور مطالبات حل ہوں گے۔
میوزک کی تیاری، گانے والے، لکھنے والے، دھن بنانے والوں کے قانونی حقوق کا تحفظ یقینی ہوگا۔ میوزک کی فروخت، اس کی چربہ سازی اور میوزک چرانے سے متعلق دیرینہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ میوزک پالیسی ہمسایہ ممالک میں رائج قوانین اور بین الاقوامی معیار کے مطابق تیاری کی گئی ہے۔
پرانے میوزک کو محفوظ کرنے کے لئے خصوصی اقدامات بھی پالیسی میں شامل ہیں۔ مقامی اور فوک میوزک، علاقائی زبانوں میں موسیقی کے لئے بھی اقدامات پالیسی کا حصہ ہیں۔ گلوکاروں، لوک فنکاروں اور مقامی و علاقائی میوزک کو پروموٹ کریں گے۔ اس پالیسی کے ذریعے پاکستان کی موسیقی کے عظیم ورثے کے تحفظ اور فروغ کے لئے اقدامات ہوں گے۔
پاکستان کی موسیقی کا ورثہ بہت بھرپور اور تاریخی ہے جو صوفیاءکرام کی شاعری، قدیم اور جدید موسیقی کا نادر مجموعہ ہے۔ موسیقی پاکستانی معاشرے کی روح کہی جاسکتی ہے، یہ قومی ، تہذیبی اور ثقافتی شناخت نسل درنسل منتقل ہوتی آرہی ہے۔ کاپی رائٹ کی اہمیت سے عوام کو آگاہ کیا جائے گا تاکہ معیاری میوزک بنے اور عوام تک پہنچے۔ دانشورانہ حقوق ، میوزک کی چوری سے پاکستان اور میوزک انڈسٹری دونوں کو نقصان ہورہا ہے۔