یکساں قومی نصاب کی کتابوں میں شائع شدہ تصویروں پر بحث شروع ہوگئی

8 Sep, 2021 | 07:27 PM

Abdullah Nadeem

ویب ڈیسک:    پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے یکساں قومی نصاب یعنی سنگل نیشنل کریکولم (ایس این اسی) کے تحت شائع ہونے والی پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں ایک خاندان کو ساتھ وقت گزارتے دکھایا گیا ہے۔

 اس تصویر میں ماں اور بیٹی کو حجاب پہنے باپ اور بیٹے کے سامنے زمین پر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ایسی ہی مزید تصاویر خیبر پختونخوا اور پنجاب میں متعارف کروائے جانے والے اس یکساں قومی نصاب کی کتب میں نظر آتی ہیں۔ یہ تصاویر نہ صرف اسلامیات بلکہ اردو، انگریزی اور معاشرتی علوم کی کتابوں میں بھی ہیں، جہاں خواتین اور بچیوں کو حجاب میں دکھایا گیا ہے۔لیکن دوسری جانب مردوں اور بچوں کے لباس موقع کی مناسبت سے پیش کیے گئے ہیں جیسے کہیں پر وہ مغربی لباس پہنے ہوئے ہیں اور کہیں وہ روایتی شلوار قمیض یا اپنا پیشہ وارانہ لباس پہنے ہوئے ہیں۔

ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ اس پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کی نصابی کتب میں خواتین کی کس انداز سے عکاسی کر رہے ہیں۔تاریخ دان اور مصنف یعقوب خان بنگش کا کہنا ہے کہ ’ان کتب میں آخر کون سی ثقافتی اقدار دکھائی جا رہی ہیں؟ ایسا تو ان عرب ممالک میں بھی نہیں ہوتا جہاں سے حجاب کی یہ روایت آئی ہے۔‘انھوں نے مزید کہا ’ایک لڑکی اپنے بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ حجاب پہن کر کیوں بیٹھے     گی؟‘

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی سنہ 2018 میں کی جانے والی ایک رائے شماری میں پاکستان کو خواتین کے لیے چھٹے خطرناک ترین ملک کا درجہ دیا گیا تھا۔ حالیہ کچھ عرصے میں بھی ملک میں خواتین کے خلاف گھناؤنے ترین جرائم سامنے آ رہے ہیں اور معاشرے میں اس حوالے سے ایک شدید بحث چھڑ چکی ہے کہ آخر  اس کی وجہ کیا ہے۔

یکساں قومی نصاب کی کتب میں خواتین کی عکاسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزارتِ تعلیم و فنی تربیت کی تکنیکی مشیر ڈاکٹر عائشہ رزاق کا مؤقف ہے کہ بچوں کی نصابی کتب میں خواتین کی عکاسی ریاست کے برابر شہری کے طور پر کی جانی چاہیے۔ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ اگر لڑکے اپنی کتب میں خواتین اور بچیوں کو صرف سر ڈھانپیں ہی دیکھیں گے تو وہ سوچ سکتے ہیں کہ ان کی کتب میں عکاسی کی جانے والی خواتین سے مختلف لباس پہننے والی کو ہراساں کرنا جائز ہے۔
’آہستہ آہستہ آپ بچوں کی تربیت کر رہے ہیں کہ اگر کوئی عورت ان کپڑوں کے علاوہ کسی اور کپڑوں میں ملبوس ہو تو وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔‘ان کتب میں خواتین کا ایک مخصوص لباس تو مسئلے کا ایک پہلو ہے لیکن دوسرا تشویشناک امر ان کتب میں خواتین کو روایتی کرداروں میں دکھایا جانا ہے۔‘پانچویں جماعت کی انگریزی کی نصابی کتاب میں ایک جملہ ہے کہ ’میرے والد روزانہ اخبار پڑھتے ہیں‘ اور اسی صفحے میں آگے چل کر کہا گیا ہے کہ ’میری والدہ کپڑے دھوتی ہیں۔‘

یکساں قومی نصاب کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مختلف جماعتوں میں پڑھائی جانے والی دس سے زیادہ کتب کے جائزے میں دیکھا گیا ہے کہ خواتین کو یا تو گھریلو کردار یا ٹیچر کے طور پر دکھایا گیا ہے جبکہ بچیوں کو تصاویر میں پھولوں، کپڑوں یا بلیوں سے کھیلتے دکھایا گیا ہے۔دوسری جانب لڑکوں کو مختلف کھیل کھیلتے دکھایا گیا ہے اور مردوں کو متنوع پیشہ ور کرداروں میں پیش کیا گیا ہے مثلاً ٹرک ڈرائیور، کسان، ڈاکٹر یا فوجی۔ان نصابی کتب میں شاذ و نادر ہی ایسی تصاویر موجود ہیں جن میں خواتین کو فائٹر جیٹ پائلٹ یا سائنسدان دکھایا گیا ہے۔

یہاں اس بات کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ خواتین کی ایسی رجعت پسندانہ منظر کشی صرف یکساں نصاب تک ہی محدود نہیں۔ایس این سی کی کتب کا پرانے نصاب کے ساتھ موازنہ کرنے کے لیے پنجاب کی گذشتہ سال کی کتب کا بھی جائزہ لیا گیا۔جماعت پنجم کی انگریزی کی 102 صفحات پر مبنی کتاب میں خواتین کی صرف دو تصاویر تھیں اور ان دونوں خواتین کو دوپٹہ اوڑھے دکھایا گیا ہے۔اسی کتاب میں ایک لکڑہارے کی کہانی ہے جس کے ہاتھ پیتل کی جادوئی کیتلی لگ جاتی ہے جس میں وہ حادثاتی طور پر اپنی بیوی کو گرا دیتا ہے اور بعد ازاں اس میں سے ایک کے بجائے اس کی دو بیویاں برآمد ہوتی ہیں۔یکساں نصاب کی تیسری جماعت کی اردو کی کتاب میں گرامر کی ایک مشق دی گئی ہے جس میں ایک جملہ کچھ یوں ہے کہ ’عائشہ نے نماز پڑھی‘ جبکہ اس سے اگلا جملہ ہے کہ ’لڑکوں نے فٹ بال کھیلا۔

ڈاکٹر عائشہ رزاق کہتی ہیں ’دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات یہی بتاتی ہیں کہ چھوٹی بچیوں کا رجحان سائنسدان یا انجینئر بننے کی طرف اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب وہ ان شعبہ جات میں کام کرنے والی مثالی خواتین شخصیات کو زیادہ دیکھتی ہیں۔‘ڈاکٹر یعقوب بنگش بھی اس خیال سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نصابی کتب کے ذریعے بچوں کو یہ تعلیم دینی چاہیے کہ مرد و عورت برابر ہیں۔

اقلیتوں کی طرف سے کی جانے والی شکایات کے علاوہ نئے نصاب کے معیار پر اور بالخصوص ان کتب میں خواتین کی نمائندگی اور عکاسی کے بارے میں ماہرین اور والدین، دونوں کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا۔لاہور میں کھانے پکانے کا کام کرنے والی ثمینہ کے دو بچے اس وقت زیر تعلیم ہیں۔ ان سے جب بچوں کی کتب میں خواتین کی تصویر کشی سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’مرد اپنے آپ کو مضبوط دکھانا چاہتے ہیں۔اس سے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ صرف ہم ہی تمہارے لیے کما سکتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آپ خواتین کو باورچی خانے میں دکھائیں لیکن بطورایک ڈاکٹر کے دکھانے میں کیا حرج تھا۔‘
 

مزیدخبریں