یہ کہنا صحیح نہیں کہ انسان سب کچھ بھول جاتا ہے، زخم بھر جاتے ہیں، دل مطمئن ہو جاتا ہے، سب کچھ پہلے جیسا ہو جاتا ہے نہیں, بالکل نہیں، سب پہلے جیسا نہیں ہوتا،
8 اکتوبر 2005 کا دن ہی یاد کر لیں جب وہ صبح ایک قہر بن کر نمودار ہوئی، وہ سورج تاریکی کا سورج بن کر ابھرا روشن دن اس وقت گرد و غبار دھول مٹی دھوئیں میں بدلا جب اُس 8 اکتوبر کی صبح 8 بج کر 52 منٹ پر 7 اعشاریہ 6 شدت کے زلزلے نے زمین ہلا کر رکھ دی، سب کچھ ملیا میٹ کر دیا.
آہ وہ دن مجھے یاد ہے رمضان المبارک کا مہینہ تھا ہم نے روزہ رکھا پھر ٹیسٹ پیپرز ہونے والے تھے میرے فرسٹ ایئر کے تو پڑھنے بیٹھ گئی، صبح ہوچکی تھی کھڑکی میں چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں آنے لگیں میں پرندوں کی آوازوں کے ساتھ سب منظر انجوائے کرتے ہوئے پڑھ ہی رہی تھی کہ زور زور سے بیڈ ہلنے لگا مجھے لگا جیسے کوئی غیر مرئی قوت حملہ آور ہو گئی ہو پھر یکدم خیال آیا کہ شاید چھوٹے بھائی نے بیڈ ہلایا ہوگا تو اسکو آواز دی اور بیڈ کے نیچے جھانکنے لگی مگر کوئی نہیں تھا تو مزید ڈر گئی گردن اٹھائی ادھر ادھر دیکھا پورا کمرا دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہوتا دکھائی دیا تو فوراً زبان سے ایک ہی لفظ ادا ہوا زلزلہ اور جمپ لگا کے بیڈ سے اتر کر سیڑھیوں کی طرف بھاگی، اپنی بڑی بہنوں کو آواز دی، سیڑھیوں سے نیچے جاتے ہوئے امی بابا کو آواز دی اورہم باہر پورچ میں نکلے مگر زمین پر قدم جما کر چلنا مشکل تھا، دیوار کا سہارا لے کر چل رہے تھے مگر کانپتی ٹانگوں کے ساتھ قدم لڑکھڑا رہے تھے، دل کی دھڑکن خوف سے زور پکڑ چکی تھی، لگ رہا تھا جیسے سب ختم ہو جائے گا ہم بمشکل گیٹ کراس کر کے گئے سب ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ رہے تھے پھر رُک گئے، سب لوگ گھروں سے باہر آ چکے تھے مگر سب کے چہرے خوف زدہ تھے، ہر ایک پر لرزہ طاری تھا کہ جیسے آج آخری دن ہو، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ پڑھتے رہے، پھر زلزلہ تھم سا گیا، ایک دم جیسے ہر طرف سکوت طاری ہو گیا.
ہم گھر کے اندر آئے زندگی کا پہلا اتنا بڑا زلزلہ محسوس کیا معلوم نہیں تھا کہ اسکے آفٹر شاکس بھی شدید ہونگے، میرے بابا نے ٹی وی آن کیا اور خبریں سننے لگے کہ زلزلے کی شدت کیا تھی کچھ ہی دیر میں لال پٹی ٹی وی پر نمودار ہوئی، زلزلے کی شدت 7.6 لکھ کر آئی بریکنگ چلنے لگی تو میرے مرحوم بابا نے کہا اللہ اکبر یہ تو بہت خطرناک ہے ضرور نقصان ہوا ہوگا اور اگلی خبر تھی اسلام آباد کا مارگلہ ٹاور زمین بوس ہو گیا، اس خبر نے جیسے بابا جانی پر سکتہ سا طاری کر دیا، ہم نے کبھی بھی تب اس وقت نہیں دیکھا تھا مارگلہ ٹاور مگر بابا نے دیکھا تھا، انہوں نے کہا یہ تو بہت بڑا ٹاور ہے یہ تو بڑا نقصان ہے، اتنے میں آفٹر شاکس کا سلسلہ شروع ہو گیا ایک اور زلزلہ جسکی شدت 7 اعشاریہ 3 تھی غالباً ، بس یہی سلسلہ ہوتا تھا ہم کبھی بھاگ کر باہر جاتے کبھی اندر آتے، افطار کا وقت ہوتا دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے کہ زلزلہ محسوس ہوتا اور فورا کھجور کھا کے باہر بھاگتے تھے، مزید کشمیر سے خبریں آنا شروع ہوئیں تو لگا کہ بس قیامت نازل ہو چکی یے، اب دنیا فنا ہو رہی ہے.
ہر طرف خوف کی فضا تھی، لوگ گھروں میں جانے سے گریزاں تھے، کہ کہیں اندر گئے اور گھر یا اپارٹمنٹس فلیٹس گر نہ جائیں، مہینہ بھر آفٹر شاکس آتے رہے، ماہرین کہتے تھے زلزلہ جب زیادہ شدت کا ہو تو ایک مہینہ یا شاید اس سے بھی زیادہ عرصے تک آفٹر شاکس آ سکتے ہیں،اُس وقت 8 اکتوبر کے اُس دن تباہ کن زلزلے میں تقریباً 30لاکھ افراد بے گھر ہوئےتھے اور 88 ہزار اموات ہوئیں، اس زلزلے میں وفاقی دارالحکومت کے ایف ٹین مرکزمیں واقع مارگلہ ٹاوربھی منہدم ہوا تھا زلزلہ کے وقت یہاں 157افراد موجود تھے جن میں خواتین اور بچوں سمیت خواتین اور بچوں سمیت 73 افراد جاں بحق ہوئے، ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر میں ہر طرف ملبہ تھا، کشمیر میں تباہی کے ایسے خوفناک مناظر تھے کہ جن سے روح کانپ جائے، اس وقت اسکولوں کالجوں میں گرلز گائیڈ کا بہت رجحان تھا مشکل وقت میں یہ گرلز گائیڈ ایک سپاہی کی طرح ہوتی تھی، میں بھی گرلز گائیڈ کا حصہ تھی، ہمیں اسکول کی اساتذہ اپنے ساتھ پمز ہسپتال لے گئیں سمجھا بجھا کر کے وہاں کیسے ہم نے نرسنگ اسٹاف کی مدد کرنی ہے.
مجھے یاد ہے ہم پمز ہسپتال کے گیٹ کے اندر داخل ہی ہوئے تھے ابھی گاڑی سے اترے کہ ایک ہیلی کاپٹر جو ہمارے سروں سے چند فٹ کی اونچائی پر تھا وہ آ کر پمز ہسپتال کے لان میں اترا جو کے ایک چھوٹے سے پارک جتنا لان تھا بڑا سا خالی میدان اس میں سے انگریز خواتین آرمی کی جوان آفیسرز اتریں اور پھر فوراً فوراً اپنا کام کرنے لگے سب، ہر طرف ہسپتال میں زخمی تھے، خواتین بچے مرد درد سے چیخ رہے تھے تو کہیں ہسپتال میں اسٹریچرز پر بے یارو مددگار لاشیں پڑی تھیں،زخم ایسے تھے کہ دیکھے نہ جاتے تھے، چیخ و پکار تھی، ایک خاتون جو آزاد کشمیر سے لائی گئی تھی جسکی ملبے تلے دب کر ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی مگر وہ اکیلی ہسپتال کے بستر پر پڑی تھی نہ مکاں رہا تھا نہ مکیں رہے تھے اور طرف جسمانی درد تھا جو اسے سیدھا ہونے نہیں دیتا تھا دوسری طرف اپنے خاوند اور بچوں کی جدائی میں دل چھلنی اور روح زخمی تھی اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کیا تسلی دیں اس عمر میں تسلی کی صحیح طرح سمجھ کہاں ہوتی ہے.
آگے بڑھے ایک نرس نے مدد کے کے لیے پکارا ایک 14 سے 15 برس کی لڑکی کے بال دھلوانے تھے جس کے سر کے بال خون میں بھرے پڑے تھے اور بال ایک دوسرے سے چپکے ہوئے تھے مگر سر میں درمیانی حصہ خالی تھا اندر کا دماغ بھی دکھائی دیتا تھا، ہم ڈر گئے کہ کہیں غلطی نہ کر بیٹھیں، کئی خواتین جو بری طرح زخمی تھیں زخموں سے چُور چُور تھیں کہتی تھیں خدارا کہیں سے بچوں کو لا دو گھر ختم ہو گیا سب ختم ہو گیا ہمارے اپنے نہیں رہے یہ کیسی قیامت کی گھڑی ہے، بیشتر افراد تھے بچے خواتین جن کے سر سے صرف سائبان نہیں گیا تھا سب کچھ انکا اجڑ گیا، وحشت کا وہ عالم تھا کہ کسی اپنے کا سہارا بھی نہیں تھا جس سے وہ اپنی اس بے بسی یا وحشت کا اظہار کرتے,مجھے یاد ہے اُس وقت بھی کچھ بے حس خود غرض افراد نے لوگوں کے ڈر نا فائدہ اٹھایا تھا، فلیٹس کے رہائشی لوگوں کے لیے پارکوں میں ٹینٹس لگائے گئے تھے پھر انہیں گھروں میں نہ جانے کی ہدایات کی گئی تھی اور اسی دوران انکے گھروں سے چوریاں بھی ہوئیں، خیر ہر دور میں بے حس لوگ بھی ہوتے ہیں مگر وہ کرب و اذیت کا دن 19 سال گزر جانے کے بعد بھی ہر ایک کے دل و دماغ پر نقش ہے.
مجھے اس سال 2024 میں بھی 2005 کے اس تباہ کن زلزلے پر رپورٹ بنانے کا ٹاسک ملا تو میں نے مختلف لوگوں سے پوچھا وہ اس وقت کہاں تھے؟؟ اور انکے جواب سے یقین ہوا کہ کچھ زخم ہمیشہ تازہ رہتے ہیں,شہری سید حیدر شاہ نے کہا کہ اکتوبر 2005 میں وہ چکری روڈ کے قریب نوکری کرتے تھے اور زلزلے کے وقت باہر سڑک پر تھے کہ اچانک زمین اس شدت کے ساتھ ہلی کہ وہ کئی فٹ تقریباً 100 فٹ دور گرے انکا کہنا ہے کہ وہ منظر بہت عجیب تھا اور پھر اسلام آباد سمیت کشمیر خیبرپختونخوا سے تباہی کی خبروں نے مزید پریشان کیا، سید حیدر نے کہا آج بھی 8 اکتوبر کے دن انہیں خوف محسوس ہوتا ہے,شہری آصف جو خود بھی پیشے سے صحافی ہیں انہوں نے کہا کہ زلزلے کے وقت کھیل کے میدان میں تھے کرکٹ کھیل رہے تھے جب زلزلہ محسوس ہوا تو ان کا کہنا تھا ایک عجیب سا شور تھا اس دن نے ہر منظر کو جیسے بدلا اسے وہ آج بھی یاد کر کے غمزدہ ہوتے ہیں، کے آصف نے کہا کہ زلزلہ زدگان کے پاس جب جاتے تھے تو انکے زخموں سے دل چھلنی ہوتا تھا.
شہری محمد عامر نقشبندی نے کہا کہ وہ دن یاد کر کے آج بھی ذہن و دل پر لرزہ طاری ہوتا ہے، ایک عجیب سا خوف محسوس ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ 8 اکتوبر کی وہ صبح بھیانک تھی دعا ہے ایسا دن کبھی نہ آئے,ایک اور شہری محمد منظور نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب مارگلہ ٹاور کی بلڈنگ گری تو ملبے کے نیچے سے چیخ و پکار آتی تھی، ہر طرف پریشانی تھی بس غم ہی غم کے بادل تھے، انہوں نے کہا کہ وہ اس دن کو کبھی یاد نہیں کرنا چاہتے,مگر یہ دن بھولتا بھی نہیں.
ہاں سچ ہے کوئی نہیں بھولتا وہ زلزلے کا درد، وہ ہر پاکستانی کا دُکھ تھا اور ہے، مارگلہ ٹاور میں جاں بحق ہونے والوں کے تو نام ایک چھوٹے سے مونومنٹ پر لکھے گئے مگر مارگلہ ٹاور دوبارہ نہ بن سکا، آج مارگلہ ٹاور کے مقام پر ایک نیا ٹاور تعمیر کیا جا رہا ہے، میں اس وقت وہاں کھڑی 2005 کے مناظر یاد کر رہی تھی اور دل سے ایک ہی تکلیف دہ صدا آ رہی تھی کہ
نہ مکیں رہے نہ مکاں رہا
قیامت صغریٰ کا وہ منظر
نہ دی اک پل کی بھی زندگی نے مہلت
نئے مکین لوٹ آئیں گے یہاں کے نئے گھروندوں میں
ہائے مگر وہ زخم کیسے بھریں گے جدائی کے
نام باقی رہ گئے نشاں سب مٹ گئے
اس پرانی عمارت کے آثار سب مٹ گئے
ہائے قیامت صغریٰ کا وہ منظر
زمین بوس ہوتی آہوں اور سسکیوں کا لمحہ
کئی برس بیت گئے مگر
دل پر نقش یے وہ تارک لمحہ
ہائے قیامت صغریٰ کا وہ منظر