بلال ارشد : اردو ادب کا ایک ایسا نام جسے آج بھی محبت میں ناکام نوجوانوں کی قوم ایک بادشاہ کے طور پر جانتی ہے، جون ایلیا ہے۔ جون ایلیا کی زندگی، ان کی شاعری ، ان کا اندازِ بیان ان کے بہت سے چاہنے والوں نے آپ کو بتایا ہوگا، آج کل کے نوجوان جون ان کی شاعری سے زیادہ ان کے اندازِ بیان کو پسند کرتے ہیں، خاص طور پر وہ طبقہ جو محبت میں ملن کے تحفے سے محروم رہا ہے، جس نے اپنے کسی پیارے کو اپنی آنکھوں کے سامنے دور ہوتے یا کسی کا ہوتے دیکھا ہے۔ چونکہ جون کی زندگی بھی اس طرح کے حالات سے گزری تو ان کی زیادہ تر شاعری ’محبت میں ناکامی‘ یا ’وصال سے دوری‘ پر مبنی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جون کی زندگی میں ایسا کیا ہوا جس نے انہیں یوں بغاوت اور محبت سے نفرت کرنے پر مجبور کردیا ۔
جون کو بھی زندگی کے ایک موڑ پر محبت کا نزول ہوا تھا، ان کی شاعری سے شغف رکھنے والے ’زاہدہ حنا‘ کے نام سے ضرور واقف ہونگے۔ کو ن تھی زاہدہ حنا؟ یہ سوال اگر آج بھی ہم جون کی قبر پر جاکر کریں تو شاید اندر سے جواب آجائے۔ ’زاہدہ حنا‘ نامی ایک عام سی لڑکی جون کی زندگی میں ایک ایسا مقام رکھتی تھی کہ اس کے بارے میں کہے گئے جون ایلیا کے بہت سے شعر چیخ چیخ اس بات کی گواہی دیتے ہیں ۔ اور جیسا کہ اس دنیا کا اصول ہے اور صدیوں سے چلتا آیا ہے کہ ’’ جہاں ملن ہے جدائی بھی آس پاس ہے ‘‘ ۔ زاہدہ ہنا سے جدائی نے جون کی زندگی پر گہرا اثر چھوڑا وہ مایوسی کی تاریکیوں میں ڈوبتے چلے گئے۔
جون نے اپنی محبت سے جدائی تک کے سفر کو اس انداز میں بیان کیا ہے، کہتے ہیں کہ
’اگر دنیا میں زاہدہ اور میری محبت ناکام ہو سکتی ہے تو کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔‘
جون اور زاہدہ کی ملاقات کہاں ہوئی ؟
جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی۔ ان کی زاہدہ حنا سے محبت کے بارے میں معروف شاعر انور شعور بتاتے ہیں کہ زاہدہ حنا ایک اسکول میں بطور اکاؤنٹنٹ ملازمت کرتی تھیں، جون ان دنوں ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر کام کرتے تھے، ان کی زاہدہ سے پہلی ملاقات بھی یہیں ہوئی، اسی ملاقات کے بعد محبت کا سفر شروع ہوا، زاہدہ سے ہونے والی پہلی ملاقات کے بعد جون بے حد خوش تھے۔ انور شعور کہتےہیں کہ اس روز جون میرے پاس آئے اور مجھے سارا قصہ بیان کیا اور کہا کہ میں اس بات کا تذکرہ کسی سے بھی نہ کروں مگر تھوڑی دیر بعد جب دوسرا کوئی شخص محفل میں آیا تو اُسے بھی پورا واقعہ بیان کردیا۔
پہلی ملاقات کب کسی کو بھولتی ہے اور جو پہلی ملاقات میں دل کو بھا جائے تو دل پھر ان کے بغیر کہاں لگتا ہے، ان دنوں جون کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ کہتے ہیں عاشق جب تک اپنے محبوب کا دیدار نہ کرلے کوئی کام نہیں کرپاتا اور اگر کہیں دیدار ہوجائے تو کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا، بار بار دیدار کی خواہش ہی اس کے دل میں اٹھتی ہے اور وہ دنیا سے چھپتا اپنے محبوب کی گلیوں کے کئی چکر کاٹتا ہے، جون بھی زاہدا کو دیکھنے کے لیے کسی نہ کسی بہانے سے اسکول پہنچ جاتے تھے۔
انور شعور کہتےہیں کہ ایک روز جون نے مجھے بتایا کہ وہ اور زاہدہ ایک سڑک پر کافی دیر ٹہلتے رہے اور بہت ساری باتیں بھی کیں، اس روز جون بہت خوش تھے ۔ وقت گزرتا گیا اور محبت کا سفر پروان چڑھتا گیا۔ کہتے ہیں کہ قسمت جن پر مہربان ہوتی ہے انہیں ان کا محبوب مل جاتا ہے، جون کی قسمت میں زاہدہ کا ساتھ تھوڑا ہی لکھا تھا، انہیں وہ حاصل تو ہوئی مگر دونوں ساتھ نہ چل سکے ۔ ان کی معاشی حالت اور ان کا ذریعہ معاش اس رشتے میں علیحدگی کی وجہ بنا جس نے بعد میں جون کو شراب کی لت لگا دی اور زندگی سے مایوس کردیا ۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کی راہیں جُدا ہوگئی تھیں۔
جون کی مطلقہ اہلیہ زاہدہ حنا نے بھارت میں انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’جون صاحب سے میری شادی یا اُن کی شادی مجھ سے یہ ہمارا اپنا انتخاب تھا، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی نے ہم پر یہ رشتہ تھوپا تھا۔ زاہدہ حنا نے کہا کہ وہ شادی کے بعد جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھیں کہ ہم دونوں کا فیصلہ غلط تھا، صرف میرا نہیں بلکہ اُن کا (جون ایلیا) کا فیصلہ بھی غلط تھا۔ جون کو صرف ایسی بیوی چاہئے تھی جو ان کے گھر کا خیال رکھے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’شادی کے بعد گھر چلانے کی ساری ذمہ داری مجھ پر آگئی کیونکہ جون صاحب تھوڑی دوسری وضع کے آدمی تھے، لہذا کوشش کے بعد بھی ہماری نہیں بنی۔‘ جون کے زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔
جون صاحب اپنی بیوی اور بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے لیکن صرف محبت ہی کبھی کبھار جدائی کا سبب بن جاتی ہے۔ ذمہ داریوں کی حقیقت سے بھاگنے والا یہ شاعر محبت میں تباہ تو ہو گیا لیکن کوئی رشتہ(ذمہ داری) نہ نبھاہ سکا۔ خود جون نے بھی اپنے بارے میں ایک عجب انداز میں کہا ہے
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کے بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
یہ شعر ان کی قبر کے کتبے پر بھی لکھا گیا ہے ۔
محبت کی مہربانیوں سے آشناس یہ شخص محبت کی تلخیوں کو برداشت کرتے ہوئے 8 نومبر کی شام اس تلخ حقیقتوں سے نجات حاصل کرگیا ۔
خود اس بارے میں کہہ گیا کہ ؛
جون غم کے ہُجوم سے نکلے
اور جنازہ بھی دھوم سے نکلے
اور جنازے میں ہو یہ شورِ حزیں
آج وہ مر گیا ، جو تھا ہی نہیں