سٹی42: گزشتہ صدارت کے دوران امریکی شہریوں سمیت دنیا بھر کے لئے مصیبتیں کھڑی کرنے اور آخر کار الیکشن ہار کر وائٹ ہاؤس سے نکلنے، جنسی تعلقات کے عوض رقمیں لٹانے اور ٹیکس چوری جیسے گھٹیا جرائم میں مبتلا ڈونلڈ ٹرمپ صدر کا الیکشن جیت تو گئے ہیں لیکن ان کی عادتیں اب بھی نہیں بدلیں، تارکینِ وطن کے ووٹوں سے صدر کا الیکشن جیتنے کے بعدبھی ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن کی آمد روکنے اور انہیں امریکا سے نکالنے کے اپنے بیانات پر قائم رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈھائی ماہ بعد صدر بننے کے بعد تارکین وطن کو نکالنے کا موقع معلوم نہیں ملے گا یا نہیں لیکن ٹرمپی سیاست سے مایوس بلکہ خوفزدہ امریکہ کے شہریوں نے پہلے ہی وطن چھوڑ جانے کے لئے سوچنا شروع کر دیا ہے۔
جیسا کہ امریکہ میں قبل از انتخاب رائے عامہ کے جائزوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے دوسری مدتِ صدارت کا عندیہ دینا شروع کیا تو بڑی تعداد میں امریکی پہلے ہی ایک اور قسم کے ایکسوڈس کی تلاش میں سرگرداں تھے: بیرونِ ملک منتقلی!
نیوزی لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا امریکیوں کی تین محبوب منازل کیلئے گوگل سرچ تاریخ کی بلند ترین سطح پر
گوگل کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ منگل کو امریکن ایسٹ کوسٹ پول بند ہونے کے بعد 24 گھنٹوں کے دوران گوگل پر"کینیڈا منتقلی" کے لیے سرچ میں 1,270 فیصد اضافہ ہوا۔ نیوزی لینڈ جانے کے بارے میں معلومات کی سرچ میں تقریباً 2,000 فیصد جبکہ آسٹریلیا کے لیے 820 فیصد اضافہ ہوا۔ امریکن ایسٹ کوسٹ پر بدھ کی شام گوگل کے ایک اہلکار کے مطابق ہجرت کے بارے میں گوگل پر تینوں ممالک کے لیے سرچ ہمہ وقتی بلند سطح پر پہنچ گئی۔
گوگل اس سلسلہ میں قطعی اعداد و شمار فراہم نہیں کرتا لیکن امیگریشن نیوزی لینڈ کی ویب سائٹ کی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ سائٹ پر سات نومبر کو تقریباً 25,000 نئے امریکی کنزیومرز نے لاگ ان کیا جبکہ گذشتہ سال اسی دن یہ تعداد 1,500 تھی۔
ترکِ وطن کے بعض وکلاء بھی اس وقت لوگوں کے سوالات کے جوابات دینے میں غرق ہیں۔
کینیڈا کی سب سے پرانی امیگریشن لا فرم، گرین اینڈ سپیگل کے منیجنگ پارٹنر ایون گرین نے کہا، "ہر نصف گھنٹے میں ایک نئی ای میل انکوائری ہوتی ہے۔"
ہجرت کے لیے اچانک جوش و خروش بیرون ملک جانے میں لوگوں کی دلچسپی کا مظہر ہے جو ٹرمپ کی 2016 کی فتح کے بعد دیکھا گیا۔ البتہ اس بار ریپبلکن ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب نے خاص طور پر ایک باعثِ تقسیم مہم کی پیروی کی ہے جس میں ایڈیسن ریسرچ کے قبل از انتخاب رائے عامہ کے جائزوں میں تقریباً تین چوتھائی امریکی ووٹرز نے کہا کہ انہیں امریکی جمہوریت خطرے میں محسوس ہوتی تھی۔
نئی سیاسی کونفلکٹس کا ڈر
کئی امریکیوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان نسل، جنس، بچوں کی تعلیم و تربیت اور تولیدی حقوق جیسے مسائل پر ایک بڑا اختلاف پیدا کر سکتی ہے۔
آزادیوں سے محرومی کا ڈر
گرین نے کہا، "ٹرمپ واضح طور پر ایک قوت ہے، لیکن یہ سماجی بھی ہے۔ امریکیوں کی اکثریت نے انہیں ووٹ دیا اور کچھ لوگ ضروری نہیں کہ اب اس قسم کے معاشرے میں رہنے میں پرسکون محسوس کریں۔ لوگ ڈرتے ہیں کہ وہ آزادی سے محروم ہو جائیں گے۔"
اپنی حفاظت کا خوف
امریکہ چھوڑنے والوں کے لیے وقف کردہ ایک Reddit گروپ جو "r/AmerExit" کہلاتا ہے، میں سینکڑوں لوگوں نے مثالی مقامات اور وہاں کا ویزا اور نوکریاں حاصل کرنے کے لیے تجاویز پیش کیں۔ کچھ صارفین نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے انتخاب جیتنے کے بعد اپنے ملک، اپنی حفاظت یا دونوں کے لیے خوفزدہ تھے۔
ونکوور کی قانونی فرم بیل الائنس کی امیگریشن کنسلٹنٹ ہیدر بیل کے مطابق کینیڈا ہجرت کرنے کے خواہاں امریکیوں نے انتخابات سے پہلے ہی ان خدشات کا بہت زیادہ اظہار کیا تھا۔
بیل نے کہا، تاہم بہت کم لوگ اس معاملے کو انجام تک لا پائیں گے۔
انہوں نے کہا، "کینیڈا ہجرت کرنا خاص طور پر اب آسان نہیں ہے کیونکہ کینیڈین حکومت نے کینیڈا آنے والے عارضی اور مستقل تارکین کی تعداد میں کمی کی ہے۔"
ڈونلڈ ٹرمپ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ لوگ امریکہ چھوڑ کر بھاگنے والے "اللیگل تارکین وطن نہیں لیگل امریکی "ہیں۔
"پریذیڈنٹ الیکٹ" نے امریکی میڈیا کو اپنا پہلے انٹرویو دیتے ہوئے منہ سے گولا داغا کہ وہ امریکا کے بارڈرز کو محفوظ بنانے اور تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے اپنے بیانات پر قائم ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق "لوگوں کی ملک بدری کی قیمت" کے سوال پر ٹرمپ نے بے حسی کے ساتھ جواب دیا، "یہ قیمت کی بات نہیں ہے، خاص کر ایسے وقت میں جب لوگوں کو قتل کیا جائے اور منشیات کے گینگ ملک کو تباہ کررہے ہیں تو ایسے میں لوگوں کو واپس جانا ہوگا اور اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ "1gr45
امریکی میڈیا ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد غیرقانونی تارکین کیخلاف تاریخی آپریشن کا امکان بھی ظاہر کر رہا ہے۔ غیر ملکی تارکین زیادہ تر لاطینی امریکی ممالک یعنی جنوبی امریکہ سے آتے ہیں جو سپینش بولنے والی کمیونٹی میں گھل مل جاتے ہیں۔ اس ہی کمیونٹی کے لوگوں نے بڑی تعداد مین ڈیموکریٹک پارٹی کو چھوڑ کر ٹرمپ کو ووٹ دیئے جس سے وہ صدر کا الیکشن جیتنے کے قابل ہوئے۔ اب ٹرمپ اسی کمیونٹی کو نشانے پر رکھنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے ایک طرف تو امریکہ میں موجود لوگوں کو نکالنے کی باتیں کیں، اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ لوگوں کے امریکا آنے کے خلاف بالکل نہیں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ امریکا آئیں۔
امریکا میں تارکین وطن کی تعداد لاکھوں میں ہےاور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اتنے زیادہ لوگوں کو ملک بدر کرنے کا کوئی پلان بنا تو اس پلان پر عمل کرنے میں حکومت کو معاشی اور نقل و حمل کے چیلنجز درپیش ہونگے۔
واضح رہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں تارکین وطن کی امیگریشن روکنے اور غیر قانونی رہائش پذیر لوگوں کو نکالنے کی بات کرتے رہےہیں۔